برصغیر کے عوام میں پراسرار قوتوں اور مابعدالطبیعات خیالات کے حوالے سے زبردست میلان پایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو ہندوستان میں مختلف اساطیری عقائد پر مبنی مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے اس قسم کے نظریات کو برطانوی راج میں ہندوئوں نے بھر پور انداز میں پروان چڑھایا ہے۔ ہندوئوں کے بارے میں عام خیال ہے کہ وادیٔ سندھ میں پروان چڑھنے والی تہذیب نے مذہبی مقام حاصل کر لیا۔ ہندوستان میں پنپنے والی قدیم ہڑپہ‘ موہنجوداڑو اور مہر گڑھ کی تہذیبوں کے آثار قدیمہ کی پراسراریت کے بھید کھلنا ابھی باقی ہیں۔ ان تہذیبوں کے بارے میں عام خیال یہ کہ یہ 5000سے 8ہزار سال پرانی ہیں ان تہذیبوں کے بارے میں کہانیاں لکھنے والوں اور سازشی نظریات پھیلانے والوں نے ایک عقیدہ بھی گڑھا ہے کہ یہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے تباہ ہوئی تھیں مغرب کے مصنفین آج بھی 1909ء میں سارتھ کمار گوش کے ناول سلطنت کا شہزادہ(Prince of destiny) کو حوالہ بنا کر ہسٹری چینل پر مہا بھارت کا حوالے دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ موہنجوداڑو میں آج بھی ایٹمی جنگ کے تابکاری اثرات پائے جاتے ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور کچھ انتہا پسند ہندو آج بھی اڑن کھٹولوں خلائی جہازوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی توہمات پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے یار خاص میاں نواز شریف آج کل خلائی مخلوق کا پرچار کر رہے ہیں ان کو یقین ہے کہ خلائی مخلوق ان کو سزا دلوانے کے درپے ہے اور یہ خلائی مخلوق آئندہ انتخابی نتائج بھی تبدیل کر دے گی۔ میاں نواز شریف کی سیاسی تاریخ اور ان کے ارتقا کے عوامل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے ان کے اس مخصوص خیال کی کوئی وجہ ہو۔ نواز شریف کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی مودی سے دوستی کا منطقی نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ نواز شریف بھی ایسے توہمات پر یقین رکھیں جیسا کہ مودی سات سروں والے راون پر یقین رکھتے ہیں۔خلائی مخلوق سے محبت ان کے خون میں سرائیت کر چکی ہے جو اب ان کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے سابق گورنر جیلانی کو کسی طرح اس بات پر قائل کر لیا کہ پاکستان میں انقلاب فرانس کی تاریخ دہرانے کے لیے میاں نواز شریف کو ان کی نگرانی اور تربیت کی ضرورت ہے اس طرح نواز شریف کے سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے ہی گورنر جیلانی کے جھولے میں ہی ان کے دماغ میں خلائی مخلوق کا تصور پرورش پا چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے نجی اداروں کے قومیائے جانے کے بعد ان کا خاندان واحد مثال ہے جس کو بھٹو دشمنی کے صلے میں اتفاق سمیت باقی فیکٹریاں نہ صرف واپس کی گئی بلکہ تلافی کے طور پر 4سو ملین روپے بھی دیے گئے اس کے برعکس پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل گروپ بیکو تھا جہاں چین ملائشیا اور تھائی لینڈ کے انجینئرز کو تربیت فراہم کی جاتی تھی ان اداروں کو مالکان کے حوالے اس لیے نہ کیا جا سکا کیونکہ مالکان کے پاس ان کو واپس خریدنے کے لیے رقم نہ تھی اگر بیکو کے ساتھ بھی اتفاق انڈسٹری ایسا سلوک کیا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آج بیکو کا پاکستان میں بھی وہی مقام ہوتا جو بھارت میں ٹاٹا کو حاصل ہے۔ پاکستان میں اس خلائی مخلوق کا جنم 1981ء میں ہوا جس کے بعد کئی سر ابھر آئے۔ اس خلائی مخلوق کا راتوں رات امیر ہونے کا کھیل تو 1981ء سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا مگر 1992ء میں معاشی اصلاحات کے ذریعے پاکستان سے دولت بیرون ملک لانڈر کرنے کو قانونی شکل دی گئی۔ اس طرح میاں نواز شریف کے آئی جے آئی کے سربراہ بننے اور وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے میں بھی اسی خلائی مخلوق کا عمل دخل تھا۔ یہ آزادی مساوات اور بھائی چارے والے انقلاب فرانس کی مثال نہ تھی۔ سابق صدر آصف زرداری اچھی طرح آگاہ ہیں کہ خلائی مخلوق نے ہی اپنے لے پالک بچے کو 1998ء کے انتخابات میں محبت کا ثبوت دیتے ہوئے انتخابات میں اکثریت دلوائی تھی۔ اس واضح اکثریت کے بعد ہی میاں نواز شریف نے قومی اداروں کو کھوکھلا کرنے کا منظم اہتمام کیا تھا۔ اس وقت ان کا پہلا شکار چیف جسٹس تھے جو میاں نواز شریف کی بے لگام گورننس کو لگام دینے کی کوشش کر رہے تھے انہوں نے سپریم کورٹ پر چڑھائی کروائی۔ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا پھر اسی خلائی مخلوق کے بل بوتے پر صدر لغاری کے درپے ہو گئے دوسروں کے لیے کھائی کھودنے والے کے خود کھائی میں گرنے کا مقولہ اس وقت سچ ہوا جب ان کے اپنے چنیدہ آرمی چیف نے ہی ان کو 1999ء میں نکال باہر کیا تو انہوں نے سعودی عرب کے ذریعے رحم کی اپیل کی سعودی عرب کے سرور پیلس میں بیٹھ کر اپنے لیے دوبارہ اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں جت گئے۔عام خیال تو یہ بھی ہے کہ خلائی مخلوق تاحال موجود ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں بھائی ایک بار پھر بڑے میاں اور چھوٹے میاں کا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں آج بھی مقتدر حلقوں میں یہ خیال موجود ہے کہ بڑے میاں کے بعد چھوٹے میاں کی صورت میں ایک بہتر متبادل موجود ہے اس تاثر کی موجودگی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ماضی میں زرداری کی صورت میں سلالہ‘ ایبٹ آباد اور میمو گیٹ کے واقعات کی وجہ سے زرداری کا تجربہ کوئی خوشگوار ثابت نہ ہو سکاتھا۔ اس وقت عمران خان ہی واحد ایک آپشن تھے جن کی پارٹی تیزی سے ابھر رہی تھی مگر وہ بھی زخمی ہوئے اور میدان سے نکل گئے جس کے بعد پنجاب میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور 40آزاد امیدواروں کو مسلم لیگ ن کی طرف ہانک کر نواز شریف کو ملک پر حکمرانی کرنے کا کورا چیک دیا گیا مگر اس وقت بھی عمران خان ان کے راستے کا پتھر ثابت ہوئے اور عمران نے ان کی خراب کارگزاریوں کے خلاف آواز اٹھائے رکھی عمران خاں 2014ء سے آج تک میاں نواز شریف کے خلاف لگا تار مہم چلا رہے ہیں جس میں 120روز کا دھرنا بھی شامل ہے۔ اس وقت بھی یہ خلائی مخلوق کی ہی مہربانی تھی کہ جس نے نواز شریف کو اس طوفان کے تھپیڑوں سے محفوظ رکھا اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بننے والے کمشن اور دھاندلی کے الزام میں نواز شریف کی حکومت کو گرنے سے بچائے رکھا۔ نواز شریف نے اس موقع پر بھی خود کو بچانے کے لیے سول حکمرانی کا نعرہ لگایا جس کی وجہ سے ان کے گرد فوج مخالف قوتیں جمع ہو چکی ہیں ان میں کچھ نام نہاد لبرل اور بلوچ قومیت پسند شامل ہیں۔ پشتونوں کے گارڈ فادر محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی بھی نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہیں نواز شریف کو امید ہے کہ وہ ان حمایتیوں کے ساتھ پنجاب اور بلوچستان کے دہشت گردوں کو ساتھ ملا کر ’’فوج کو روکو ‘‘مہم چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے خلائی مخلوق کے زیر سایہ نشو و نما پانے والے نواز شریف کو یہ وہم ہے کہ ان کی آواز پر قوم اٹھ کھڑی ہو جائے گی اور وہ ایک بار پھر غیر متنازعہ واحد قومی لیڈر بن کر ابھرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان پر یہ خبط اس قدر سوار ہے کہ ان کو پاکستان سلامتی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ۔وہ مایوسی میں پاکستان میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں جوہری پاکستان بحران کا شکار ہو جائے اور بیرونی قوتوں کو مداخلت کا موقع مل سکے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس خلائی مخلوق نے ہی ان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا اس وقت تو ان کی سول معاملات میں عسکری مداخلت کی چال کامیاب ہو گئی مگر ان کو ایک اور آفت پانامہ پیپرز نے آن گھیرا۔ پانامہ کی صورت میں عمران کے ہاتھ میں ایک اور موقع آ گیا اور وہ عوامی حمایت سے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔2017ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا ۔ 2018ء میں وہ نہ صرف تاحیات بلکہ سیاسی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار پائے۔ اس کے بعد آسمانی مخلوق نے بھی ان کے سر سے اپنا دست شفقت اٹھا لیا۔ سپریم کورٹ کے کردار نے نیب میں بھی جان ڈال دی اور نیب نے ایون فیلڈ کا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اب برطانیہ کی حکومت جس کو آف شور سرمایہ کا فائدہ ہو رہا تھا وہ بھی میاں نواز شریف کی مدد کے لیے تیار نہیں اور قانون کے لمبے ہاتھ نواز شریف کے گریبان تک پہنچ چکے ہیں جس سے صرف ملک میں انارکی پھیلا کر ہی بچا جا سکتا ہے۔ خلائی مخلوق کے دست شفقت سے محروم ہونے کے بعد اب نواز شریف پاکستان کی تنگ نظر اور موقع پرست سیاست میں جائے پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ خیال ان کے لیے اب ڈرائونا خواب بن چکا ہے کہ یہ خلائی مخلوق ان کے درپے ہے۔ ان کے جاہ و جلال کے بت آخر ٹوٹنے کو ہیں مگر اس کی ایک قیمت ادا کرنا پڑے گی اور تمام پاکستانیوں کو یہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔