21 سال پہلے، امریکا میں ہونے والے نائن الیون کے حملوں نے مسلم معاشروں میں سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے ایک سلسلے کی بنا رکھی تھی۔دنیا بھر میں مسلم معاشرے ان سے متاثر ہوئے۔وہ جن کو الزام دیا گیا اور وہ بھی جو اس ساری صورتحال سے لا تعلق تھے ۔راہ چلتے ہر اس فرد کو نفرت کا نشانہ بنایا جانے لگا جو حلیئے سے مسلمان یا مسلمانوں جیسا نظر آتا تھا۔بتایا گیا کہ اس حملے کے پیچھے القاعدہ تھی۔ مشرق وسطیٰ اْس وقت نقطہِ اشتعال پہ تھا، کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ القاعدہ کے نظریے کی جڑیں دراصل یہاں کے سیاسی تنازعات اور اِس خطے میں رائج مذہبی فکر میں پیوست ہیں۔ بعد کے برسوں میں اٹھنے والی ‘عرب بہار’ کی لہر خطے میں جمہوری تبدیلی لانے میں ناکام رہی۔ اب، خلیجی ریاستوں کی بادشاہتیں ازخود اپنی کوششوں کے ذریعے ان تبدیلیوں کو متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہیں جن سے متعلق بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ وہ جمہوری عمل کے ذریعے سے آسکیں گی۔ خلیجی بادشاہتوں نے جس تبدیلی کی بنا رکھی ہے اس کی مالی اور سیاسی قیمت اگرچہ کم ہے لیکن محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اثرات دْور رس ثابت ہوں گے۔ یہ عمل دنیا بھر کے مسلم معاشروں پر اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بہت سے لوگ اندازہ لگا رہے ہیں کہ سعودی عرب میں اعتدال پسندی کی کوششیں ہوں، مذہبی اصلاحات ہوں، یا اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والا ’ابراہیمی معاہدہ‘، اس طرح کے اقدامات مسلم معاشروں میں ان بنیادپرست گروہوں کو کمزور کریں گے جو طویل عرصے سے خلیجی ریاستوں کی مالی و سیاسی حمایت کے بل بوتے پر پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ اگرچہ اس دعوے کے حق میں کوئی عملی شواہد موجود نہیں ہیں، تاہم ’تبدیلی کے عمل‘ کی رفتار اور نتائج اس دعوے کی توثیق کو ممکن بنائیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے واقعات اور وہاں ہونے والی پیشرفت پاکستان میں نظریاتی اور سیاسی رجحانات کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی واپسی، ایران میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور بھارت میں فرقہ وارانہ منافرت کے عروج پر بھی تشویش لاحق ہے۔ ان سب معاملات کے ساتھ دیگر بیرونی عوامل اور ان پر ریاست کا ردعمل، آہستہ آہستہ ملک کے سماجی، سیاسی اور نظریاتی خدوخال کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی، جس کے مظاہر کو حقیقت کا رْوپ دھارنے میں کچھ وقت لگے گا، یہ نہ صرف مذہبی فکر کو از سرِنو تشکیل دے گی بلکہ مستقبل میں سماج کے اندر انتہا پسندی کے رجحانات کی نوعیت کو بھی طے کرے گی۔ غیرریاستی عناصر، مذہبی گروہ اور مقتدر اشرافیہ اب تک خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے مطابق اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔ خلیجی ریاستوں پر پاکستان کا بڑھتا ہوا مالی انحصار نہ صرف اس کے جیوپولیٹیکل اور سٹریٹجک مفادات و فیصلوں پر اثرانداز ہوگا بلکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ قریبی فکری وابستگی کے حامل مذہبی گروہوں کے بارے میں ریاست کے رویے کو بھی متاثر کرے گا۔ سعودی عرب میں ہونے والی مذہبی اصلاحات نے پاکستان میں قدامت پسند مذہبی گروہوں کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کیا ہے، جن کے لیے راتوں رات اپنا نقطہ نظر بدلنا مشکل ہے۔ پرتشدد فرقہ پرست گروہوں کے علاوہ، تقریبا 20 سے زیادہ گروہ اور جماعتیں ایسی تھیں جو خلیجی ریاستوں کے تعاون کے بل بوتے پر پھل پھول رہی تھیں۔ان کا وجود سرپرستی سے محروم ہوا تو دم توڑ جائے گا۔ ان میں سے بعض گروہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس تبدیلی کو جیسے تیسے ہضم کرلیا جائے اور اس پر احتجاج نہ کیا جائے تاکہ خلیجی ممالک سے ملنے والی مالی امداد کو جاری رکھا جاسکے۔ تاہم، کچھ گروہ مزاحمت کرتے ہوئے غیر ملکی فنڈنگ کے متبادل ذرائع تلاش کرنا چاہتے ہیں یا مقامی سطح پر اپنے امدادی وسائل کا حلقہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ پاکستانی ریاست نے بھی بعض ان عسکریت پسند اور بنیاد پرست مذہبی گروہوں کے بارے اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کیا ہے جنہیں کبھی ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔ ریاست نے یہ اقدام بیرونی دباؤ، خاص طور پر ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کے بعد اٹھائے، جن کے سبب اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی گئی۔ مذہبی گروہ ہمیشہ کی طرح تقسیم کا شکار ہیں لیکن ان کی نمایاں اکثریت، بشمول متشدد فرقہ وارانہ گروہوں کے اب بھی خود کو سعودیوں کے ساتھ ہم آہنگ محسوس کرتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے نے بھی ان میں فتح کا احساس جاگزیں کیا ہے۔ سعودیوں کو ملک میں سماجی اور ریاستی دونوں سطحوں پر ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ان عناصر کی حمایت جاری رکھنے میں دلچسپی ہوگی۔ مستقبل کی سیاسی ضرورتوں کے لیے بھی ان تنظیموں کی افادیت ہمارے ہاں پیشِ نظر ہوگی۔ تاہم، وہ مدارس کو عسکریت پسندوں کی ایک اور نسل پروان چڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے جس سے بالآخر ریاستی اداروں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ منطقی اعتبار سے خلیجی ریاستیں پاکستان میں سول سوسائٹی کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کرسکتیں، کیونکہ مؤخرالذکر جمہوری رجحانات کی حامل ہیں، لہذا وہ مذہبی جماعتوں سے ہی اپنے پرانے اتحادیوں پر انحصار کرتی رہیں گی۔ یہ یقینی نہیں ہے کہ خلیجی ریاستیں مذہبی گروہوں پر کوئی تبدیلی مسلط کرنے کی کوشش کریں گی جب تک کہ وہ ان کے کام آتے ہیں۔ ایران کو بھی پاکستان میں اپنے اتحادیوں کو چھوڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مذہبی گروہ راتوں رات تبدیل نہیں ہوں گے، لیکن مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیاں ان پر آہستہ آہستہ اثر انداز ضرور ہوں گی۔