عمران خاں نہیں پاکستان خطرے میں ہے‘ عمران خاں کی جان اور ذات کو جو بھی خطرات لاحق ہیں،وہ اس لئے کہ وہ خاں پاکستان کے جانے ان جانے بدخواہوں کی راہ میں مضبوط اور فیصلہ کن مزاحمت کا نام ہے‘ اس مزاحمت کو راہ سے ہٹائے بغیر دشمنوں کے لئے مذموم مقاصد میں کامیابی ممکن نہیں‘ جب کہا جائے کہ پاکستان خطرے میں ہے‘ تو کتنے ہی قلمکار جو ہر کسی کے لئے ہمہ وقت کرائے پر دستیاب رہتے ہیں، قلم کی تلوار سونت کر میدان میں اتر آتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ پون صدی سے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان خطرے میں ہے۔بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے یہ نام نہاد دانشور کرائے کے قلمکار‘ بھاڑے کے بیانیہ ساز نہیں دیکھتے‘ نہیں جانتے کہ پہلے دن سے یعنی قیام پاکستان کے اولین لمحوں سے پاکستان کے وجود کو ہمسایہ دشمنی سے خطرہ لاحق رہا ہے‘ ایک سے زیادہ جنگیں لڑی جا چکی ہیں جب دشمن کو براہ راست جنگ میں منہ کی کھانا پڑی تو اس نے سازش سے کام لیا‘پاکستان کے اندر اپنے لئے ایجنٹ بنائے اور ان کی تربیت کی پیسہ لگایا‘ پراپیگنڈہ مشینری کو خریدا۔اپنے ہی ملک میں بسنے والوں نے اپنے وطن سے غداری کی اقتدار کے لئے دولت کے لئے اور پاکستان کو دو حصوں میں کاٹ دیا گیا۔آدھا ملک گنوانے‘ صدیوں یاد رکھی جانے والی توہین کے بعد کہا جاتا ہے ہم سب محب وطن ہیں کسی کو غدار نہ کہو‘ جو چوری کر جائے اسے چور نہ کہو‘ جو ڈاکہ ڈالے اسے ڈاکو نہ کہو‘ جو ہتھیار پھینک کر اپنے بہادر سپاہیوں کو قیدی بنوا دے اسے بزدل نہ کہو اور جو ہمارے دشمنوں کے مقاصد پورے کرنے کے لئے سیاسی عدم استحکام اور معاشی دہشت گردی کا باعث بنے، اسے میر جعفر اور میر صادق نہ کہو۔تم ہی کچھ اچھے سے رکھ لو، اپنے دیوانوں کے نام‘ عمران خاں کا مقابلہ ان جوکروں سے نہیں، جنہوں نے اپنا نام‘ سیاستدان رکھ لیا ہے، اس کا مقابلہ پاکستان بھر کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے‘ جرائم پیشہ‘ لوگوں سے ہے‘وہ سارے جرائم پیشہ جو ایک سے زیادہ مافیا‘ گروپوں میں بٹے ہوئے اپنے اپنے مفادات کے لئے دست و گریبان رہا کرتے تھے عمران خاں کی شکل میں جرائم کے خلاف طاقتور آواز اور مضبوط مزاحمت کو دیکھتے ہوئے، ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ہیں‘ ان میں تین قابل ذکر شعبہ ہائے زندگی کے جرائم پیشہ نمایاں ہیں۔iشعبہ سیاسیاتiiشعبہ ابلاغیات iiiشعبہ اسٹیبلشمنٹ حال ہی میں وہ ریٹائر ہو چکے ہیں جو ان کے سرپرست اعلیٰ تھے، ان کے اثرورسوخ نے سب کو ایک جگہ جمع کیا‘ اگرچہ وہ جا چکے لیکن ان کی باقیات ابھی تک اپنی جگہ موجود ہیں‘ باقیات سے نجات تک پاکستان میں امن ہو گا نہ حالات سدھریں گے نہ ہی عمران خاں کی زندگی کو لاحق خطرات سے نجات ممکن ہو گی۔اسٹیبلشمنٹ ‘ پی ڈی ایم‘ الیکٹرانک میڈیا کے مالکان بمقابلہ عمران خاں‘ عوام ‘ عمران خاں کو پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت کی تائید حاصل ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خاں کی قیادت میں عوام فتح یاب ہوتے ہیں یا باجوہ کی باقیات میدان مارتی ہیں؟ باقیات کو خوف عوام سے ہے‘ اس خوف سے نجات کے لئے وہ عمران خاں کو راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے اگر عوام سے ان کا قائدچھین لیا جائے تو ان کی طاقت بکھر جائے گی، وہ پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے نام پر ’’مافیا‘‘ میں بٹ جائیں گے اور پچاس سال سے لوٹ مار کا دھندا چلتا رہے گا مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا‘ بے ناموں کی سرپرستی میں بدناموں کا گروہ کرائے کے قاتلوں کو میدان میں اتار چکا ہے، ان کا ایک حملہ تقریباً کامیاب ہو چکا ہے‘ ان کا نشانہ ٹھیک ہدف تک پہنچ گیا‘ بچانے والے نے خاں کی زندگی کو بچا لیا لیکن یہ ضرور ہوا کہ غینم کو کپتان کے زخمی ہونے سے کئی مہینوں کی مہلت مل گئی‘ بے نظیر بھٹو پر گزرنے والے حادثات کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے‘ پہلے کراچی میں اس پر حملہ کیا گیا‘ وہ زندہ بچ رہیں لیکن بے شمار جانثار کارکن اپنی لیڈر پر قربان ہو گئے‘ دوسرا حملہ راولپنڈی میں ہوا‘ اس حملے میں جانبر نہ ہو سکیں‘ اگر آپ بے نظیر پر ہونے والے حملوں کا تجزیہ کریں اور اس کے قتل کا فائدہ کس کو کہا؟ اس کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو قاتل کی تصویر پورے خدوخال کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے‘ عمران خاں نے جس نئے خطرے اور حملے کا خدشہ ظاہر کیاہے‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کرائے کے قاتلوں کو سپاری دینے والا بھی وہی ہے اور قاتل بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو بے نظیر کے قتل میں ملوث رہے‘ عمران خاں کو ملنے والی اطلاعات ہمیشہ درست ثابت ہوئی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر جگہ قوم و ملک سے محبت کرنے والے موجود تھے اور موجود ہیں‘ زخمی عمران کی سکیورٹی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی غیر جانبدار حکومتوں نے واپس لے لی ہے جس پر تحریک انصاف کے کارکنوں میں تشویش پائی جاتی ہے لیکن وہ خاطر جمع رکھیں، سرکاری تحفظ زیادہ خطرناک ہو سکتا‘ تحریک انصاف کے بے لوث اور بہادر نوجوان عمران خاں کو زیادہ بہتر اور قابل اعتماد تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ بے شک پاکستان بلائوں میں گھر گیا ہے‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ہنگام جو کچھ خطرات درپیش تھے، آج حالات اسے زیادہ نازک اور تشویشناک ہیں‘ دشمن نے اس بار اندر سے حملہ کیا ہے‘ ایسا حملہ اور وہ دشمن میدان میں ہے جس کا کوئی چہرہ ہے نہ پہچان کہ اس پر کوئی بڑا حملہ کیا جا سکے‘ اس حملے سے بچائو کے لئے ایٹم بم اور میزائل تو سرے سے کارآمد نہیں ہو سکتے‘ اس حملے کو ناکام بنانے کے لئے تحریک انصاف ‘ محب وطن سرکاری ملازمین اور عوام کو غیر معمولی توجہ دینا ہو گی‘ اس وقت عمران کی زندگی سے بڑھ کر پاکستان کے لئے کوئی چیز ناگزیر نہیں‘ اس لئے کہ عمران خاں کو خدانخواستہ راہ سے ہٹا دیا گیا تو ایسا شدید اور ناقابل برداشت ردعمل ہو گا‘ جسے ہماری مسلح افواج سمیت سب ادارے مل کر بھی روک نہیں سکیں‘لاکھوں نوجوان‘ عورتیں‘ مرد‘ مسلح غیر مسلح دیوانہ وار نکلیں گے کہ ہر طرف آگ اور دھواں نظر آئے گا‘اندرون ملک گلی محلوں میں ایسی قیامت برپا ہو گی کہ ہم عراق‘ لیبیا اور افغانستان کی تباہ کاریوں کو بھول جائیں گے‘بھائی کے ہاتھوں بھائی اور ہمسایہ کے ہاتھوں ہمسائے کا خون اس آفت کے‘ اوپر دوسری آفت پاکستان کے سرحد پار دشمن خاموش نہیں بیٹھے رہیں گے‘ وہ سارے جن میں کچھ بٹوارے کا درد لئے اور وہ جو رشک و حسد کی آگ میں جلتے اور وہ بھی بہت دور ہزار میل سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت فوج اور ایٹم بم سے خوف کھائے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو چین کی راہ روکنے‘ گوادر کی بندرگاہ ہتھیانے‘ چین کو ایک طاقتور حلیف سے محروم کرنے‘ سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کے آس لگائے بیٹھے ہیں خانہ جنگی سے بچ رہنے کے لئے ’’خاں کی زندگی ناگزیر ہے‘‘۔