حضرت خواجہ غریب نواز،خواجہ معین الدین چشتیؒ کے 808ویں سالانہ عرس کی مرکزی تقریبات آج بیک وقت لاہور اور اجمیر شریف میں جاری ہیں ، لاہور میں منعقدہ اہم ترین تقریب ،آپ کے اُ س "حجرئہ اعتکاف"یا"چلّہ گاہ"کا غسل شریف ہے ، جہاں آپؒ کم وبیش ساڑھے سات سو سال قبل ، برصغیر میں تشریف فرما ہوتے ہوئے ، اوّلین حاضری دے کر ،اکتساب فیض کرکے ،دنیا کو اس دَر کی "گنج بخشیوں"کی طرف متوجہ کیا۔یہ "چلّہ " خواجۂ اجمیر کے لیے جہاں فیضِ رَبّا نی کا ذریعہ بنی وہیں آنے والے دور کے تقاضوں اور ضروریات کے حوالے سے بعض اہم امورکی جانب راہنمائی کا وسیلہ بھی ثابت ہوئی، اس اوائل دور میں لاہور ، ملتان اور دہلی ---تبلیغ دین کے حوالے سے آسان ہدف تھے ،بالخصوص لاہور---حضرت داتا گنج بخشؒ کے فیضِ وجود کی برکتوں سے آراستہ ہو کر ،سلطنت غزنہ کا حصہ قرار پا چکا تھا، اور پھر حضرت داتا صاحبؒ کی نرینہ اولاد نہ ہونے کے سبب ، آج کی اصطلاح میں "سجادہ نشینی "کابھر پور دائرہ بھی میسر ہوسکتا تھا ،لیکن آپ ؒ کو اُس شہرِ اجمیر کو اپنا مستقر بنانے کا ارشاد ہوا ،جو شمالی اور جنوبی ہند کی اہم ترین گذر گاہ اور پوربی اور پچھمی ہند کے وسط میں واقع مغرور اور متکبر چوہان راجپوتوں کا مرکز تھا ،جہاں سے آنے والے وقتوں میں اسلامی رشد وہدایت کا ایک مرکزی نظام وضع ہونا اور خانقاہ کے ایک مربوط دائرے کے ذریعے دعوت وتبلیغ کے ایک عظیم سلسلہ کا ظہور ہونا تھا ،اسی داتاؒ دربار میں ،آپ کو یہ خیال بھی عطاہوا کہ جس اہم ،کٹھن اور مشکل مہم پر روانہ ہونا ہے ، اس کی بھر پو ر تیاری بھی درکار ہے ،اس لیے کہ ہندو او ر پھر ہندو وراجپوت ---کسی نئے نظم ،نظریے اور آئیڈیالوجی کو قبول کرنے والے لوگ نہ تھے ۔حضرت خواجہ کو باطنی سرفرازیوں اوربلندیوں سے بہر ہ مند کرنے کے بعد راجستھان اورراجپوتانہ کے کلچر ،ثقافت ،تاریخ ،جغرافیہ اور بالخصوص وہاں کی مقامی زبان ( Local Language ) پر مہارت کا اشارہ عطا فرمایا ، جس کے لیے ملتان میں کچھ عرصہ قیام مفید ہوسکتا تھا، کیونکہ ملتان ،بہاولپور اورسندھ کے علاقے راجپوتانہ سے متصل ہونے کے سبب ، وہاں کی ثقافتی اور لِسّانی اقدار سے آگاہی کے حامل تھے ۔دعوت وتبلیغ کے حوالے سے ، جوارشادات اورہدایات نبی اکرم ﷺ نے عطا فرما ئے ان میں بھی :ـکلموا الناس علی قدر عقولہم ،یعنی لوگوں سے ان کی ذہنی اور عقلی سطح کے مطابق گفتگو کرنے اور دوسرا ـ"تعلموا اللغۃ قوم تأمنوا شرھم " یعنی کسی قوم کی زبان سیکھ لو تو اُ ن لوگوں کے شر سے محفوظ ہوجائو گے ،جیسے زریں فرمان اصحاب تصوّف وطریقت کے ہمیشہ پیشِ نظر رہے۔دلوں کی اقلیم اور سلطنت کو سَر کرنے کے لیے حضرت خواجۂ بزرگ اپنے چالیس درویشوں کے ساتھ لاہور سے ملتان اور پھر اجمیر کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر تھوی راج چوہان کے ساتھ اس ظلمت کدئہ ہند میں حق وباطل کا عظیم معرکہ ہوا، توآپؒنے ببانگِ دہل فرما دیا "من را زندہ بدستِ لشکر اسلام بسپر دم "یعنی میں نے تجھے زندہ بھی اسلامی لشکر کے ہاتھ میں دے دیا ۔دوسری طرف سلطان مُعزِ الدین محمدغوری---علاقوں پر علاقے فتح کرتا ہوا،پنجاب پر اپنی حکومت مستحکم کرنے کے بعد ،بنیادی ہند و علاقوں کی تسخیرکرتا ہوا ، 1191ء میں تبر ہنڈہ جسے تاریخ فرشتہ اوربعض دیگر نے بٹھنڈہ بھی لکھا ہے،کے قلعے پر قابض ہوگیا، جو فوجی اور دفاعی لحاظ سے پرتھوی راج کے مضبوط قلعے تھے اور اجمیر اور دہلی کے دفاع کا انحصار بالخصوص اس قلعہ پر تھا، پر تھوی راج 2لاکھ انفنٹری اور تین ہزار ہاتھیوں کے لشکرکے ساتھ اپنے علاقے واگذار کروانے نکلا، 1191ء میں ترائن کا عظیم معرکہ ہوا،سلطان غوری طویل مہمات اور فتوحات کو سمیٹتے ہوئے اپنے دارالخلافہ "غور"کی طرف بڑھ رہا تھا ،اس اچانک پیش قدمی کو روکنے کے لیے اسے راستے ہی سے واپس آنا پڑا،گھمسان کی جنگ میں غوری فوج کو پسائی ہوئی ۔سلطان آزردہ واپس لوٹا ، اسی اثنا میں حضرت خواجۂ بزرگ نے خواب میں اس کو ہندوستان کی فتح کی بشارت دی اور ڈھارس بندھائی ۔چنانچہ اگلے ہی سال ،1192ء میں ترائن ہی کے میدان میں پرتھوی راج کے ساتھ دوسرا معرکہ ہوا،معرکہ سے پہلے ، سلطان نے اپنے ایک امیر قوام الملک رکن الدین حمزہ کو اجمیر بھیج کر پرتھوی راج کو اسلام قبول کرنے یا باجگزار بن کر رہنے کی دعوت دی ،پرتھوی راج مزید مشتعل ہوگیا اور وہ تمام ہندوستان کے راجپوت راجگان کی مدد سے ، تین لاکھ سواروں کے لشکر جرار کے ساتھ ترائن میںخیمہ زن ہوا ،ترائن کے اس معرکے نے ہندوستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا ،حضرت خواجہ بزرگؒ کی بشارت کے مطابق سلطان غوری کے ہاتھوں ہندوستان فتح ہوا اور پرتھوی راج زندہ گرفتار ہوا۔اجمیر کے چوہان خاندان کی عسکری سطوت پاش پاش ہوگئی اور یوں حضرت خواجہ کی توجہ سے ہانسی ،کیرام ،سرسوتی ،اجمیر اور کوہ شوالک کے متصلہ فوجی اہمیت کے اہم علاقے اسلامی سلطنت میں داخل ہوئے ۔اجمیر کا علاقہ اطاعت گذار ہوا ۔سلطان محمد غوری ---حضر ت خواجہؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ،دست بوسی کے بعد پندو نصائح کا متمنی ہوا،آپ نے فرمایا: مقامی لوگوں سے عدل ومحبت کا معاملہ کرنا ، انہیں یہ احساس نہ ہو کہ تم کہیں باہر سے حکمران بن کر اُن پر مسلط ہوئے ہو، ان کو اپنی مالی نوازشات اور توجہات میں شامل رکھنا اور آپؒ نے فرمایا کہ اس کے لیے ابتدائی طور پر پرتھوی راج کے بیٹے گوبند راج کو اقتدار اس وقت تک تفویض کیے رکھو ،جب تک کہ وہ آپ کی حکومت کا مطیع وفرمانبردار رہے ،چنانچہ سلطان نے ایسا ہی کیا ،اس طرح دہلی کی حکومت بھی خراج اور اطاعت کے عوض کھانڈے رائو کے ایک عزیز کے سپرد کی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اپنے اسلوب حیات او رطرزِ زیست سے اس امر کی بھی نفی کردی کہ شاید صوفیاء عزیمت کی بجائے محض رخصت والے لوگ ہوتے ہیں ۔حضرت خواجہ نے اس عہد کی اہم اور مشکل ترین ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اصحابِ طریقت وتصوّف کی بلند حوصلگی اور عالی ہمتی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ۔صوفیاء چونکہ براہِ راست مشکوۃِ نبوت سے روشنی حاصل کرتے ہیں ،اس لیے صبر واستقامت اور عزم وحوصلے میں بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں ۔نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ---خطرات کو خاطرمیں نہ لانے کا درس دیتی ہے ۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جب معرکہ کا رزار گرم ہوتا اور جنگ میں شدتِ آجاتی تو ایسے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے سایۂ شجاعت و عافیت میں پناہ لیتے ،کیونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی ثابت قدم رہنے والا نہ تھا ، مدینہ منورہ میں ایک رات،ایک ہولناک اور گرجدار آواز سے لوگ سہم گئے ، ذرا توقف کے بعد،اہل مدینہ اس خوفناک آواز کے تعاقب میں نکلے تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ،کہ حضور ﷺ ،اس مقام کی جانب سے ،سرحدی خطرات کا جائزہ لے کر ،ننگے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ،تلوار لٹکائے واپس تشریف لارہے تھے ۔ بلاشبہ اجمیر اور اس کا گردوپیش ،شدید خطرات میں گھرا ہوا تھا، لیکن قافلۂ شریعت وطریقت کے اس سرخیل نے کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، اپنے مقصد کی تکمیل میں پیش قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور ملت کو بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشا۔ تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں تو کانٹوں سے اُلجھ کر زندگی کرنے کی خُو کرلے