ایف آئی اے کی جانب سے ملک میں آٹا اور چینی بحران کے پس پردہ حقائق اور ذمہ داروں کے متعلق رپورٹ میں بعض حکومتی شخصیات کا نام آنے پر وزیر اعظم نے متعدد وفاقی وزرا کے قلمدان تبدیل کر دیئے اور ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری مستعفی ہو گئے ہیں۔ پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل اور وزیر اعظم کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے جہانگیر ترین کو متعدد ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر ارباب شہزاد بھی عہدے سے ہٹا دیئے گئے ہیں۔ مشیر صنعت و پیداوار و شوگر ایڈوائزری بورڈ عبدالرزاق دائود کو دیگر ذمہ داریوں سے فارغ کر کے صرف مشیر تجارت کے طو رپر کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار کی وزارتی ذمہ داریاں تبدیل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پاکستان کا طرز حکمرانی گزشتہ 40برسوں سے بدترین بدعنوانی، بے ضابطگی اور بدانتظامی کا شاہکار رہا ہے۔ فوجی آمروں نے طاقتور خاندانوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں نوازا، سیاسی حکمرانوں نے عوام کو نچلی سطح تک ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی بجائے بدعنوان افراد پر مشتمل نیٹ ورک کو استوار کیا۔ سیاست جو انسانی خدمت اور بہبود کا کام ہے، اسے ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ سیاسی کارکنوں کی شکل میں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی جو منشیات فروشی، قبضہ گردی، ناجائز تجاوزات، نوکریوں کی خریدوفروخت، ٹھیکوں سے کمشن ہتھیانے اور سرکاری عملے کے ساتھ مل کر ترقیاتی فنڈز ہضم کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایسے قانون شکنوں نے ان پر خلوص افراد کو سیاسی عمل سے بدگمان کیا جو ملک و قوم کی خدمت کے خواہاں تھے۔ 1970ء کے عام انتخابات سے قبل ملک میں روایتی سیاست رائج تھی۔ انگریز کی وفاداری سے نام اور مقام بنانے والے خاندان پاکستان کی تقدیر کے مالک تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں غریب اور بیروزگار نوجوانوں کو ایک طرف راشن ڈپو، سرکاری ملازمتوں اور ٹھیکوں سے نوازا اور دوسری طرف عرب ممالک اور یورپ سے افرادی قوت کے معاہدے کر کے لاکھوں افراد کو ان ممالک میں روزگار دلایا، بیرون ملک سے کمائی گئی دولت غریب اور متوسط گھرانوں میں آئی تو ان بے کسوں کو معاشی آزادی کا احساس ہوا۔ اس احساس نے انہیں سیاسی اختیار حاصل کرنے کی راہ دکھائی۔ 1985ء کے انتخابات اور اس دوران ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایسے ہی افراد کی بڑی تعداد منتخب اداروں کی رکن بنی۔ بنیادی سیاسی اور نظریاتی تربیت کی عدم موجودگی میں ان لوگوں نے سیاسی مقبولیت کے لیے روپیہ استعمال کیا۔ طویل عرصے تک پاکستان پر باری باری حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے روپیہ کے ذریعے سیاسی اختیار حاصل کرنے کے آرزو مندوں کو اہمیت دی۔ یوں سیاست اور انتظامی شعبہ روپیہ بنانے کی ہوس میں مبتلا افراد کی گرفت میں آ گیا۔ پاکستان کی 60فیصد آبادی آج بھی زراعت سے منسلک ہے۔ ہر سال گندم کی کٹائی سے پہلے باردانے کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ خریداری کے دوران ہیر پھیر اور کاشت کاروں کو پریشان کیے جانے کی کہانیاں بھی دہرائی جاتی ہیں۔ گنا کے کاشت کار جن مسائل کا شکار ہیں وہ بھی برسہا برس سے موجود ہیں۔ چاول، کپاس اور پھل و سبزیوں کے کاشتکار عشروں سے اس مسیحا کا راستہ دیکھ رہے ہیں جو ان کے استحصال کا خاتمہ کرے۔ اتنی حکومتیں آئی اور گئیں، کتنے ہی باتدبیر حکمران اور ان کے سیانے وزیر آئے لیکن یہ مسائل حل نہ ہوئے۔ وجہ یہی دکھائی دی کہ ان مسائل کی شکل میں با اختیار سیاسی و انتظامی عہدیداروں نے دولت کمانے کا طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاملات میں اصلاح کی گئی تو ان کی کمائی کا راستہ بند ہو جائے گا۔ حکومتی شخصیات، اعلیٰ افسران اور ان کے ماتحت عملے کی وجہ سے ملک پہلی بار بحران کا شکار نہیں ہوا۔ چینی کا معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے تشویشناک ہے۔ ملک میں ہر سال گندم وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے لیکن پھر بھی سال میں ایک دو بار ایسا موقع آتا ہے جب آٹا کنٹرول نرخوں سے بڑھ جاتا ہے۔ پاسکو جیسے ادارے کی موجودگی کے باوجود گندم کی سپلائی چین کیوں متاثر ہوتی ہے اس کا کسی نے علاج ڈھونڈا نہ تدبیر کی۔ ایک سال پہلے خبر ملی کہ سندھ کے سرکاری گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن گندم غائب ہو گئی ہے۔ پنجاب کے کئی گوداموں میں گندم کی نئی فصل کی جگہ پرانی خراب گندم رکھی جاتی رہی جسے بعد ازاں پولٹری فیڈ والوں کو فروخت کیا گیا۔ ہر سال اربوں روپے لوٹے جا رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے کئی بار تحقیقات کا حکم دیا۔ بعض اوقات عوامی دبائو پر حکومتوں نے تحقیقات کروائیں لیکن ان تحقیقات میں کون لوگ قصور وار ثابت ہوئے اور ان کے خلاف کیا قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی اس پر ریکارڈ کے منہ پر تالے لگے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کے خلاف اس کا عزم رہا ہے۔ جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لیے مرکز اور پنجاب میں چند نشستوں کی ضرورت تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بعض دھڑوں اور آزاد ارکان سے بات کی گئی۔ جی ڈی اے، ق لیگ، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ، بلوچستان عوامی پارٹی مینگل گروپ اور ایم کیو ایم نے ساتھ دینے کے بدلے کچھ مطالبات پیش کیے۔ تحریک انصاف نے ضرورت اور حالات کے مطابق ان جماعتوں اور اراکین کو کابینہ میں مناسب شراکت اور عہدے تفویض کیے۔ اپوزیشن جماعتیں سمجھتی رہی ہیں کہ اتحادیوں کے کندھوں پر کھڑی حکومت کسی ناخوشگوار واقعہ پر گر سکتی ہے۔ان حالات میں وزیر اعظم نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے قانونی تقاضوں کو ہر حال میں پورا کرنے کی بات کی ہے۔ بلاشبہ ایف آئی اے رپورٹ پر ان کا فیصلہ کسی حکومت کی طرف سے خود احتسابی کے حوالے سے ایک روشن نظیر ثابت ہو سکتا ہے۔