اسلام آباد ( 92 نیوزرپورٹ،صباح نیوز) سپریم کورٹ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے مقدمات تاخیر سے دائر کرنے پر برہم ہو گئی ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ سب سے زیادہ زائد المیعاد مقدمات کے پی کے سے آتے ہیں اور دانستہ تاخیر کی جاتی ہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے محمد احسن کیخلاف خیبرپختونخوا حکومت کی اپیل پر سماعت کی او ر ریمارکس دیئے کہ45 دن بعد اپیل دائر کرنے کا کیا جواز ؟۔ عدالت کی رائے ہے کہ وزیر اعلیٰ نے جو لا کمیٹی بنائی ہے اس پر نظر ثانی کی جائے ۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے آگاہ کیا کہ لاء کمیٹی کی سربراہی خود وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کر رہے ہیں ، عدالت کے سامنے پرانے مقدمات میں ہی تاخیر سامنے آ رہی ہے ، اب مقدمات بروقت داخل ہو رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس صاحب سمجھتے ہیں کے پی کے والے جان بوجھ کر تاخیر کرتے ہیں ، عدالت نے اپیل زائد المیعاد ہونے پر خارج کر دی ۔زمین کے معاملے پر 13 کروڑ ہرجانے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور قرار دیا کہ ہرجانے کے مقدمات میں شواہد دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے ۔دوران سماعت درخواست گزار رسول بخش نے موقف اپنایا کہ زمین کے کیس میں ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔جسٹس قاضی فا ئز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ آپ نے 13 کروڑ ہرجانے کا دعویٰکس بنیاد پر کیا ؟درخواست گزار نے کہامیں نے 32 سال مقدمے کی پیروی کی ہے جس پر بھاری اخراجات برداشت کئے ۔ جسٹس مشیر عالم نے کہاآپ نے اخراجات کا ایک بھی ثبوت نہیں لگایا۔عدالت ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے ۔جسٹس قاضی فا ئز عیسیٰ نے کہاآپ نے کہا وکیل کو پیسے دیئے جبکہ تمام عدالتوں میں آپ نے کیس خود لڑا ۔ اس عمر میں آرام کریں، لوگوں کی خدمت کریں ۔آپ کے بعد لواحقین چیل کوئوں کی طرح پیسے پر جھپٹیں گے ۔سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ قانون کو اس مقام پر لانا ہے جہاں معاشرے میں استحکام پیدا ہو۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قتل کے ملزم اشرف کی عمر قید کے خلاف اپیل کی سماعت کی دوران سماعت ملزم کے وکیل مدثر خالد عباسی نے موقف اپنایا کہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں میں سقم ہے گواہیوں میں تضاد ہے دو بھائیوں کے جھگڑے کے دوران گولی ایک بھائی کی بیٹی کو لگ گئی جس پر جسٹس قاضی محمد امین نے کہابھائی کی جانب سے اشتعال میں آکر بھائی کی بیٹی کو قتل کرنا بدقسمتی ہے شک کا شبہ ملزم کا ملتا ہے لیکن کیس میں شک پیدا نہیں کیا جانا چاہیے ۔