میں جب بھی کسی غریب بچے کو پرانے بوٹ پائوں میں ڈالے‘کاندھے پر بستہ رکھے ہوئے سکول جاتا دیکھتی ہوں تو مجھے خان پور واپڈا کالونی کی ننھی مارتھا یاد آ تی ہے۔ مارتھا شریف مسیح خاکروب کی پوتی تھی۔ مارتھا کی دادی اور دادا شریف ہمارے گھر صفائی کیا کرتے تھے۔ بس یہی تعلق مارتھا کو ہمارے گھر لے آتا۔ وہ کسی نہ کسی کام سے ہمارے گھر آیا کرتی۔ اپنے ساتھ ایک دو چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی لے آتی۔ٹوٹی ہوئی چپل اور اونچا سا فراک پہنے ہوئے‘مارتھا جب اپنے خوابوں کے بارے میں بات کرتی تو دنیا کی سب سے پیاری بچی لگتی تھی۔ میں اس کی یہ بات آج کتنے سالوں کے بعد بھی نہیں بھولی۔ وہ اس وقت تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ ایک روز میں نے پوچھا ،مارتھا تم سکول کیوں جاتی ہو تو کہنے لگی ، تاکہ باجی ہم پڑھ جائیں اور ترقی کر جائیں۔ میں اس ننھی بچی کی بات آج بھی سوچوں تو مسکرا اٹھتی ہوں کہ کیسی سچی بات اس نے کی تھی کہ ترقی کا راستہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ خبر نہیں کہ مارتھا کتنا پڑھی اور اس نے اپنے خوابوں کو پایا یا نہیں۔ لیکن دل ضرور اس کے لئے دعاگو رہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گھر سے سکول جانے والا رستہ ہی تاریکی سے روشنی کی طرف لے کر جانے والا راستہ ہوتا ہے۔بچے کے سکول کا بستہ کتابوں اور کاپیوں سے نہیں دراصل خوابوں سے بھرا ہوتا ہے۔ جیو میٹری باکس میں‘ خوابوں کی گھڑی ہوئی پنسلیں رکھی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی تختی پر خوابوں کے پورنے ڈال کر تمنا اور امکان کی قلم دوات سے لکھتا ہے۔جن بچوں کے کاندھوں پر بستہ نہیں ہوتا۔ وہ خوابوں سے محروم زندگی گزارتے ہیں اور جن کے کاندھوں پر بستہ اور پائوں میں سکول کا رستہ ہوتا ہے‘ وہ غربت میں بھی امیر ہوتے ہیں۔خوابوں سے محرومی سب سے بڑی غربت ہے اور اس وقت میرے وطن میں ڈھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو اس بدترین غربت کا شکار ہیں۔ یعنی ڈھائی کروڑ بچے تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ سکول سے باہر ان بچوں کی زندگی بے سمتی کے ایک عذاب سے دوچار ہوتی ہے۔ ملک کے بجٹ کا صرف دو فیصد تعلیم کے لئے مختص ہے۔ حالات کا یہ منظر نامہ مایوس کرنے لگتا ہے۔ ہم میں سے اکثر ان مسائل پر سوچتے اور کڑھتے ہیں مگر کتنے لوگ سید عامر محمود جعفری جیسے ہیں جو سوچنے اور کڑھنے سے آگے عمل کا راستہ اختیار کریں۔ 16مارچ کی وہ خوشگوار دوپہر جب سید عامر محمود الغزالی ٹرسٹ کے ہیڈ آفس میں کم وسیلہ بچوں کی تعلیم کے اس روشن خواب کے بارے میں بتا رہے تھے تو میں سوچ رہی تھی کتنے کم لوگ ایسے ہیں جو زمیں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں ورنہ۔ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا۔ سعدیہ صلاح الدین‘سعود عثمانی‘ سجاد میر‘ جمیل اطہر قاضی بھی اس محفل میں موجود تھے جہاںسامنے سکرین پر ہم کم وسیلہ‘ تہی جیب‘ بچوں تعلیم حاصل کرتا دیکھ رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک تصویر کامیابی کی ہزار داستان سناتی تھی۔ پورے ملک میں کم و بیش 700سکول الغزالی ٹرسٹ نے قائم کئے اور ایک لاکھ بچے جہاں تعلیم حاصل کر ہے ہیں پنجاب‘بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے 38اضلاع میں دور دراز دیہاتوں میں علم کی شمعیں روشن کیں۔ہندو اقلیت کے بچوں کے لئے‘ خاص سکول قائم کئے۔ اتنے بڑے تعلیمی نیٹ ورک کا انتہائی منظم اور خودکار نظام قائم کر دینا بجائے خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یہاں تک کہ وبا کے اس دور میں جہاں روزگار کم ہوئے اور مجموعی غربت میں اضافہ ہوا وہاں الغزالی ٹرسٹ نے غریب طالب علموں کے خاندانوں کو مالی مشکلات کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا ۔ان میں راشن کی ضروری اشیاء بھی تقسیم کیں۔ سید عامر محمود بتا رہے تھے کہ غزالی ٹرسٹ اپنے بچوں سے 200روپے کی معمولی فیس لیتا ہے اور اگر کوئی طالب علم یہ فیس بھی نہ دے سکتا ہو تو اس سے فیس نہیں لی جاتی۔ بچوں کو یونیفارم سے لے کر کاپیاں، کتابیں سب کچھ ٹرسٹ مہیا کرتا ہے۔ ذہین اور قابل بچے جو آگے اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں انہیں غزالی ٹرسٹ مکمل سپورٹ کرتا ہے۔ غزالی پریمیر کالج کے نام سے ایک بورڈنگ ہائوس طرز کا بڑا تعلیمی ادارہ لاہور کے مضافات سندر اسٹیٹ میں قائم کیا گیا ہے۔ کیا یہ عظیم الشان کارنامہ نہیں کہ انتہائی غریب گھرانوں کے طالب علم اس وقت بیرون ملک یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔لمز جیسی مہنگی یونیورسٹی پڑھ رہے ہیں۔کم و بیش چھبیس برس پیشتر 1995ء میں الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے نام سے ایک خواب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ کیسے روشن دماغ‘ عالی حوصلہ‘ اولوالعزم ‘ خواب دیکھنے والے لوگ تھے وہ ،جنہوں نے اپنی زندگی آسائشوں اور سہولتوں سے بھری مکمل تصویر میں بھی ادھورے خوابوں جیسے‘ ان غربت زدہ بچوں کے بارے میں سوچا ،جن کے پائوں سکول کے راستے سے نآشنا رہتے ہیں۔سید عامر محمود‘ اسی قافلے کے فرد ہیں۔ 2000ء میں انہوں نے اس قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ لمز یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ۔ پھر بریڈ فورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے سوشل مینجمنٹ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد‘ بیرون ملک میں اپنا روشن مستقبل چھوڑ کر یہاں غربت کی پاتال میں سانس لیتے بچوں کی آنکھوں میں خوابوں کے دیے روشن کرنے پاکستان آ گئے اور پھر اس خواب میں اپنے شب و روز بسر کرنے لگے۔ بلا شبہ وہ قابل فخر پاکستانی ہیں۔ ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز دیا۔ بڑا اعزاز ہے مگر مجھے یقین ہے کہ سید عامر محمود کے لئے یہ اعزاز سب سے بڑا اعزاز ہو گا کہ اللہ نے انہیں زمین کا بوجھ اٹھانے والوں میں رکھاہے۔ سید عامر محمود کے لئے۔ کیسی ویران ہوئی جاتی ہیں زندہ آنکھیں شہر والوں کو کوئی خواب دکھایا جائے گیلی مٹی سے کسی خواب کا چہرہ گوندھے اک ہنرکار کوئی ڈھونڈ کے لایا جائے