مجھے خواب دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے اور جاگتے ہوئے خواب دیکھنے کا لطف نیند والے خوابوں سے کہیں بڑھ کر ہے، تبھی تو استاد الاساتذہ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ پھر یوں ہوا کہ نیند نہ آئی تمام عمر دیکھا تھا ایک خواب کبھی جاگتے ہوئے کل شام جناب عمران خان کا خطاب اتنا سحر انگیز تھا کہ میں گویا کرسی سے چسپاں ہوگیا اور ہمہ تن گوش ہو کر ان کی تقریر دل پذیر تادیر سنتا رہا۔ تقریر اپنے اختتام کو پہنچی اور میں اس پرکشش گفتگو کے سحر سے باہر آیا تو میں نے سوچا کہ یہ سارے سپنے سہانے ضرور ہیں مگر پرانے ہیں، یہ ساری پرانی باتیں ہم کئی بار کلام شاعر بزبان شاعر کے مصداق جناب عمران خان کے لبوں سے براہ راست سن چکے ہیں تاہم ابھی تک جناب خان قوم کو ’’قابل پیمائش‘‘ خوابوں کی تعبیر دے سکے ہیں اور نہ ہی وژن کو ایکشن کا جامہ پہنا سکے ہیں۔ سب سے اہم معاملہ معیشت کا ہے، جو ابھی تک گو مگو اور بے یقینی کی فضا سے باہر نہیں آسکی، نہ ہی کوئی ایسی معاشی پالیسی دی جا سکی ہے جس کے بعد ڈری سہمی ہوئی معیشت کے تن مردہ میں کوئی نئی روح پھونکی جا سکی ہو۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں جن آرزوئوں اور تمنائوں کا بڑے پرسوز اور پرجوش انداز میں ذکر کیا ہے، وہی ہماری بلکہ سارے غریب اور متوسط طبقے کی تمنائیں بھی ہیں مگر معیشت کی عملی صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک ہمیں صرف سعودی عرب کی جانب سے ایک ارب ڈالر ملے ہیں جبکہ باقی ممالک کی جانب سے ابھی تک جو کچھ ہے وہ وعدہ فردا ہے۔ روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج دن بدن نیچے ہی جا رہی ہے۔ جہاں تک بیرونی سرمایہ کاری کا تعلق ہے وہ ابھی تک آتی دکھائی نہیں دے رہی اور داخلی سرمایہ کاری کی بوجوہ ماضی قریب میں حوصلہ افزائی نہیں حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ البتہ جناب عمران خان کی تقریر میں مجھے ایک دو واضح تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ملائیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے انہیں یہ بات سمجھائی ہے یا کسی دانشور یا دانشمند نے انہیں قائل کیا ہے کہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کل انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملائیشیا کی آبادی تین کروڑ ہے اور ان کی برآمدات 220 بلین ڈالر سالانہ ہیں جبکہ ہماری آبادی 21 کروڑ ہے اور ہماری برآمدات صرف 24 ارب ڈالر سالانہ ہیں۔ خان صاحب نے خود ساری قوم کو بتایا کہ مہاتیر محمد نے کہا کہ سرمایہ کاری کے بغیر خوش حالی آ سکتی ہے اور نہ ہی لوگوں کو نوکریاں مل سکتی ہیں۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہارے ملک میں زیادہ سے زیادہ معاشی سرگرمیاں جوبن پر ہوں تو پھر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کا موقع دو۔ خان صاحب کو 2011ء کے مینار پاکستان پر نہایت کامیاب جلسے کے بعد تو تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کا یقین ہو چکا تھا اور پھر 2013ء میں انہیں وفاقی حکومت میں آنے اور اپنا کمال فن دکھانے کے لیے خیبر پختونخوا کی حکومت کی صورت میں تیاری کا پانچ سالہ موقع بھی مل گیا تھا۔ گزشتہ روز خان صاحب نے معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے والی سکیموں اور پالیسیوں کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ محض تمنائے بیتاب سے تو معیشت کا جہان تازہ آباد نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کی پرکشش باتیں اکیلے خان صاحب نہیں اور بہت سے لوگ بھی کرتے ہیں اور زمانے سے کر رہے ہیں مگر بطور وزیراعظم اب بلاتاخیر وژن نہیں ایکشن سامنے آنا چاہیے۔ ابھی تک کوئی ٹیکسٹائل پالیسی، کوئی زرعی پالیسی وجود میں نہیں آئی۔ پاکستان میں موجود خام مال سے تیار ہونے والی اشیاء کے کوئی تیار شدہ منصوبے چھوٹے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے لیے ابھی تک پیش نہیں کئے جا سکے۔ اسی طرح میڈیم سائز یا بھاری نوعیت کے صنعتی پراجیکٹ بھی سامنے نہیں لائے جا سکے۔ زراعت بھی ہمارے وزیراعظم صاحب کا ایک مرغوب موضوع ہے۔ اس کا بھی وہ تقریباً ہر تقریر میں ضرور تذکرہ کرتے ہیں اور عام کسان کی حالت سدھارنے، ان کی زندگی میں بہتری اور خوش حالی لانے کے لیے وہ بڑی دردمندی اور حیرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ خان صاحب کے دست راست جہانگیر ترین نہ صرف ماہر زراعت ہیں بلکہ انہوں نے ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے ریگستانوں اور بیابانوں کو لہلاتے کھیتوں اور سونا اگلتے کھلیانوں میں بدل دیا ہے۔ خان صاحب گزشتہ سات برس میں ان سے پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کا کوئی منصوبہ تیار کروا کے کسان و زمیندار بھائیوں کے سامنے پیش نہیں کرسکے۔ ایک مرتبہ اس سے پہلے بھی اپنے قارئین سے شیئر کیا تھا کہ سپین میں قرطبہ سے غرناطہ تک کا سارا راستہ کم بلندی والی پہاڑیوں سے گزرتا ے۔ میں گاڑی خود ڈرائیو کر رہا تھا۔ بڑا سہانا موسم تھی میں نے گاڑی کا شیشہ کھول رکھا تھا۔ باہر سے بڑی بھینی بھینی زیتون کی خوشبو آ رہی تھی۔ مجھے بہت تجسس ہوا۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے میں نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ سارے راستے میں دوطرفہ زیتون کے قد آدم درخت لگے ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سارے راستے میں خود کسانوں نے زیتون برآمد کرنے کے لیے فیکٹریاں لگائی ہوئی ہیں۔ گویا کسان خود ہی کاشتکار ہے۔ خود ہی صنعتکار اور خود ہی برآمد کنندہ بھی ہے۔ اب اس کی فصل اور اس کی محنت کا معاوضہ کسی درمیانی رابطے کے ہاتھ نہیں، اس کی اپنی جیب میں آتا ہے۔ چند سال پیشتر اٹلی کے سفیر سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ آپ کی ساری پوٹھوہار بیلٹ پر اعلیٰ قسم کا زیتون لگایا اور بیرون ملک برآمد کیا جاسکتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی سفیر نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ پاکستانی شاید ہی ایسا کریں کیونکہ آپ کے اندر پتہ مار کر کام کرنے کی عادت نہیں۔ اپنی زمینوں پر دنیا جہان سے ماہرین زراعت بلا کر طرح طرح کی نئی نئی فصلیں اگانے نئے نئے زرعی منصوبے بروئے کار لانے اور زمین کی پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھانے والے جہانگیر ترین زرعی ملک کی قسمت سنوارنے کے لیے تحریک انصاف کو ایک نہیں کئی منصوبے دے سکتے تھے اور بنجر زمینوں کو گل و گلزار بنانے کے کئی پروگرام عوام کے سامنے پیش کرسکتے تھے مگر کسی نے سنجیدہ ہوم ورک کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ لیگل ریفارمز کی بھی خان صاحب اکثر بات کرتے رہتے ہیں مگر ابھی تک قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کا کوئی ماحول پیدا نہیں ہو سکا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب صوبے اور بلدیاتی اصلاحات کو لگتا ہے بھلا ہی دیا گیا ہے۔ ان تین ماہ کے بعد غریب و سفید پوش بندے کے تاثرات معلوم کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی زندگی پہلے سے کئی گنا مشکل ہو گئی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ گیس مہنگی، بجلی مہنگی اور پٹرول بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ کل کی تقریب میں جناب اسد عمر نے ساری مشکلات کو آسان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جناب وزیراعظم جہاں چاہیں گے ’’عوام کی بہتری‘‘ کے لیے یوٹرن ضرور لیں گے۔ کل خدانخواستہ ہمارے عوام کے خواب بکھریں گے یا ان سے کئے گئے عہد و پیمان ٹوٹیں گے تو خان صاحب کے کسی مشیر وزیر کا بیان آ جائیگا۔ خان صاحب نے عوام کی بہتری ہی کیلئے تو یوٹرن لیا ہے۔