نئے پاکستان کا خواب دیکھنے والی آنکھوں میں ابھی خوابوں کی تازگی ماند نہیں پڑی کہ تلخ تعبیر کی راکھ اڑنے لگی۔ ابھی وزیراعظم عمران خان کی غیرروایتی اور دل میں اتر جانے والی تاریخی تقریر کی گونج باقی تھی۔ ریاست مدینہ کے طرز حکمرانی کی مثالیں۔ خلفائے راشدین کے انصاف اور مساوات پر مبنی سماج کی شاندار کہانیاں، ابھی روح کو گرماتی سماعتوں میں رس گھولتی تھیں۔سرکاری فضول خرچی اور اسراف کو ترک کرنے کا عہد۔ وی آئی پی کلچر کو دفن کرنے کا عزم، کفایت شعاری سے ملک اور عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ، ابھی تو فضا میں دھمالیں ڈھالتا تھا۔ ابھی تو کپتان کے منہ سے نکلے ہوئے سنہرے شاندار الفاظ کا جادو سر چڑھ کربول رہا تھا۔ کتنے ہی ایسے تھے جن کو وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر کے غیر روایتی اور دل میں اتر جانے والے انداز گفتگو نے قائل کرلیا تھا اور جو پہلے ہی قائل تھے ان کی خوشیوں کا تو ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ کون ہوگا جس نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اس تقریر کو اور عمران خان کے نئے پاکستان کے وژن کوسراہا نہ ہوگا مگر اب ان میں سے بیشتر خاور مانیکا، ڈی پی او پاکپتن والے ایپی سو ڈپر دل برداشتہ ہیں اور اس کا اظہار وہ اپنے اپنے انداز میں کر رہے ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ،اس حکومت کو بنے کہ ایسے واقعات بھی ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ ساری امیدوں کی گرد بیٹھنے لگی ہے۔ یہ خاور مانیکا، بشریٰ بی بی اور عمران خان کی تکون تو سمجھ سے باہر ہے۔ واقعہ تو سارا اخبارات اور چینلز پر آ چکا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی طور اسکا دفاع ممکن نہیں۔ جو لوگ اس پر اعتراض کر رہے ہیں کہ ابھی پورا واقعہ صحیح رپورٹ نہیں ہوا۔ ان کی یہ دلیل کافی کمزور ہے۔ ساری بات سوشل میڈیا پر آ چکی ہے۔ ڈی پی او کے تبادلے کے احکامات تک وائرل ہو چکے ہیں اور اس قابل مذمت واقعہ پر ملک کے وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب کا بیان بھی جو سوشل میڈیا پر میری نظر سے گزرا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اسے Trivial Matters کہہ کر اس سے جان چھڑا لی ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسی طرح کے ’’ٹری وئیل میٹرز‘‘ ہوتے رہے تو کیا پھر لوگ نئے پاکستان کے خواب کو ایک خواب ہی سمجھیں۔ اب تک ہونے والے فیصلوں میں کچھ ایسے ہیں جو بظاہر مضحکہ خیز دکھائی دیتے ہیں۔ دل اس پہ قائل نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب کاانتخاب بھی ہے۔ جنوبی پنجاب سے ہی وزیراعلیٰ لانا مقصود تھا تو بہتر چوائس ہوسکتی تھی، عثمان بزدار سے ہمیں کیا ذاتی پرخاش ہو گی لیکن ایک سیدھے سادھے واجبی سے پس منظر رکھنے والے شخص کو پنجاب جیسے صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دینا سمجھ سے باہر ہے جس صوبے کا گورنر چوہدری سرور ہو جو برطانیہ کی سیاست میں فعال کردار کرتے رہے ہیں جس کی کابینہ میں یاسمین راشد جیسی شاندار شخصیت کی خاتون ہو۔ علیم خان، اسلم اقبال جیسے سیاست کے شاطر اور کائیاں کھلاڑی ہوں جس کے کنٹرول میں پنجاب کی گھاگ اور جہاندیدہ بیوروکریسی ہو۔ ہر شعبے میں موجود ایک سے بڑھ کر ایک قابل ترین آفیسر ہوں۔ اس سارے بندوبست اور نظام کا باس سردار عثمان بزدار جیسا بظاہر ڈھیلا ڈھالا، سیدھا سادھا، انسان جس کا سیاسی اور تعلیمی پس منظر بھی بس واجبی سا ہو۔ گفتگو کرنے اور اپنا ماضی الضمیر بیان کرنے کی بھی وہ صلاحیت نہ رکھتا ہو جو ایک ملک سے سب سے بڑے اور وائبر نیٹ صوبے کے حاکم سے توقع رکھی جا سکتی ہے تو بتائیے یہ فیصلہ کرکے کس کا مذاق اڑایا گیا۔ کس کے ایما پر یہ فیصلہ ہوا۔ کس کو خوش کیا گیا؟ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی اب تک کی کارکردگی سے ایک یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کیلئے بنی گالہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں تو یہ تک کہا جانے لگا ہے کہ وہ یہ بھی کپتان سے پوچھتے ہیں کہ چائے میں چینی کتنی ڈالنی ہے۔ پنجاب کے اتنے بڑے صوبے کو کیا ایسے چلایا جاسکتا ہے؟ اختیار اور ذمہ داری باہم مربوط ہے اورلازم و ملزوم ہے۔ اختیار کے ساتھ ذمہ داری آتی ہے۔ یہ کس قسم کا طرز حکمرانی ہے جس میں سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کو ایک کٹھ پتلی بنا کر صورتحال مضحکہ خیز کردی جائے۔ ہاں جو پارٹی کا وژن ہے وہ واضح ہونا چاہیے۔ گائیڈ لائن اور عمل کا راستہ سب کو پتہ ہونا چاہیے تاکہ صاحب اختیار پوری ذمہ داری کے ساتھ فیصلے کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ خاور مانیکا کی گاڑی کو روکنے کی ’’جرأت‘‘ کرنے والے ڈی پی او کے تبادلے کے احکامات کہاں سے آئے۔ ظاہر ہے آئی جی پنجاب کو کہیں سے پریشرائز کیا گیا تو یہ تبادلہ ہوا۔ کڑیاں آپ خود ملاتے جائیں۔ عثمان بزدار محض ایک کٹھ پتلی کی طرح کام کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ان کی تقرری میں بھی بشریٰ بی بی کے استخارے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے اب وہ احکامات کے لیے بھی اسی منبع رشد و ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں۔ خاور مانیکا والے حالیہ ایپی سوڈ سے یہ واضح ہو چکا ہے۔ ویسے مجھے تو بھائی خاور مانیکا کی نفسیات بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنی سابقہ اہلیہ کے خاتون اول ہونے پر وہ جو اس طرح اترائے پھرتے ہیں کہ قانون کو روندتے رہیں اور کسی کو پوچھنے کی جرأت نہ ہو۔ نوے کی دہائی میں بینظیر کا دور حکومت اور ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کی من مانیاں اور دخل اندازیوں پرایک دلچسپ شعری تبصرہ ان دنوں کسی کالم میں چھپا تھا۔ غالب کے شعر کی تحریف یوں کی تھی: بنا ہے بی بی کا شوہر پھرے ہے اتراتا ہے وگرنہ شہر میں آصف کی آبرو کیا ہے! چلو بیوی وزیراعظم ہو تو شوہر کا اترائے پھرنا سمجھ میں آتا ہے۔ یہاں مگر معاملہ بھی عجیب و غریب ہے۔ یا تو تہہ در تہہ کوئی ایسا رمز ہے جو ہماری اوسط درجے کی سمجھ سے باہر ہے۔ عجیب الجھی الجھائی سی کہانی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایسے معاملات پر فوری ایکشن لینا چاہیے اور اس پر بند باندھنا چاہیے۔ ان کی بائیس برس کی ریاضت کے جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی اس کامیابی کو مانیکا خاندان ریزہ ریزہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ایک طرف قانون نافذ کرنے کی باتیں ہیں، وی آئی پی کلچر ختم کرنے کے اعلانات ہیں اور دوسری طرف ملک میں ایسے ڈرامے ہورہے ہیں جو نئے پاکستان کی امید میں اور توقع میں نہال ہوتے ہوئے پاکستانیوں کو نڈھال کر رہے ہیں۔ بدترین بادشاہت میں شاید ایسا ہوتا ہو کہ جہاں پناہ کو روکنے کی جرأت کیسے کی۔ تمہاری یہ مجال۔ پاکپتن کے ڈی پی او رضوان گوندل کو اس مجال اور جرأت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ رضوان گوندل بھی اس قافلہ امید میں شامل ہوں جو نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہا تھا۔کچھ لوگ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے والے۔ آس اور امید سے تو باز نہیں آتے بلکہ بہتر سماج کی آس، امید اور خواب پر ہی جیتے ہیں لیکن ڈرے سہمے بھی رہتے ہیں کہ اگر کہانی کے بدلے ہوئے کردار اسی کہانی کو دھرانے لگ گئے ہیں تو پھر اس دل کی ویرانی کا کیا ہوگا۔ پھر خوابوں کے ملبے پر بیٹھ کر کون سے مسیحا کا انتظار کریں گے۔ امیدوں کی راکھ کو پھر کون سے دریا میں بہا کر آئیں گے۔ ہماری امیدیں اوردعائیں پھر بھی عمران خان اور اس کی ٹیم کے ساتھ ہیں۔ جہاں کچھ نہیں ہوتا، وہاں امید اور آس ہوتی ہے۔ ہاں یہ نہیں ہو گا کہ جوہڑ کو سمندر اور صرصر کو صبا کہہ کر ہر بے جا فیصلے کا دفاع کرتے رہیں اور ہر مضحکہ خیز صورت حال کے حق میں دلائل کے دریا بہادیں۔