مری اس تحریر کا عنوان تھا‘خوابوں کے سوداگر‘ پوری دنیا میں چرچا تھا کہ برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس نے اپنے لیے ایک شہزادی ڈھونڈی ہے۔ وہ بالکل آسمانوں سے اتری ہوئی ہے اس وقت ڈان گروپ کے اردو روزنامے ’’حریت‘‘ کی ذمہ داری نئی نئی مرے سپرد ہوئی تھی۔ میں بھی نئے نئے راستے ڈھونڈتا رہتا۔ شاید میں بھی سوداگر تھا‘ میں بھی کچھ بیچنا چاہتا تھا ۔اخبار ہی سہی وہ جس کی مارکیٹ میں قیمت ہو‘ ان دنوں ابھی ٹیکنالوجی بہت پیچھے تھی۔ رنگین تصویریں پلک جھپکتے سمندر پار کا سفر طے نہیں کرتی تھیں۔ میرے ساتھیوں نے اس بات کا انتظام کیا کہ اس شادی کی تصاویر دستی طور پر ہمیں برطانیہ سے وصول ہو جائیں۔ ہم بہت نازاں تھے‘ یہ عام تصاویر بھی نہ تھیں‘ کاغذ پر چھپی ہوئیں بلکہ ٹرانسپرنسی تھیں۔ یعنی پرنٹنگ کے لیے اس وقت یہی سٹیٹ آف آرٹ انداز پاکستان میں دستیاب تھا۔ ہم نے جتنی جلد ہو سکا انہیں پرنٹنگ کے لیے تیار کیا‘ اس وقت یہ کام بھی خود کار مشینوں سے نہیں ہوتا تھا بلکہ یوں کہیے مینوئل ہوتا تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم اپنے حریف اخبارات پر سبقت لے جائیں گے۔ طے ہوا کہ اتنے بڑے کارنامے کو ذرا دھوم دھام سے چھاپنے کے لیے ٹائٹل سٹوری میں خود لکھوں۔ بتایا کہ ہم بھی سوداگر تھے۔ میں نے اس سٹوری کا عنوان وہ دیا جس کا شروع میں ذکر کیا ہے۔ یعنی خوابوں کے سوداگر۔ مطلب یہ تھا کہ برطانوی ایک تاجر قوم ہے۔ وہ یہ فن ایسا جانتی ہے کہ اس نے اس کے زور پر دنیا پر حکومت کی ہے۔ آج کے عہد میں اسے معلوم ہے کہ دنیا اب بھی شہزادے‘ شہزادیوں کے خواب دیکھتی ہے۔ اس نے ان خوابوںکو بہت خوبصورتی سے بیچنے کا عزم کیا ہے اور اسے اس خوبصورتی سے بیچا ہے کہ اس کی داد دینا پڑتی ہے۔ اس نے اس تقریب کو اس طرح منایا کہ پوری دنیا کی نظریں برطانیہ کی عظمت و شوکت رفتہ پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں۔ کچھ ایسی ہی کہانی تھی جو رنگین تصاویر کے ساتھ اخبار کے دو صفحات پر مشتمل تھی۔ ہم نے بھی اپنی ’’دکان‘‘ کے مطابق یہ خواب بیچ دیے تھے۔ اگلے روز اخبار کی خوب دھوم مچی تھی۔ یہ سب مجھے آج 37سال بعد اس دور کے شہزادے شہزادی کے بیٹے کی شادی پر یاد آیا۔ ہمارے ایک آدھ چینل نے تو دونوں شادیوں کے مناظر ساتھ ساتھ چلائے ہیں۔ ڈیانا سچ مچ شہزادی بن کر ابھری۔ یوں لگتا تھا کہ وہ باتیں جو ایک ’’عامی‘‘ سے منسوب کی جاتیں تو شاید ’’عیب‘‘ بن جائیں‘ ڈیانا کے ہاں ایک شہزادی کی گویا ملکوتی شخصیت میں ڈھل جاتی تھیں۔ خیال رہے یہ میں کوئی ڈیانا کی تعریف نہیں کر رہا۔ ایسا کرناہوتا تو خوب شاعری کرتا۔ الحمد للہ وہ نثر لکھنا بھی اللہ کے فضل سے جانتا ہوں۔ میں تو صرف وہ صورت حال بتا رہا ہوں کہ بیسویں صدی میں بھی شہزادے شہزادیوں کے خواب کیسے بیچے جاتے تھے۔ لگتا تھا کہ بادشاہ یا ملکہ صرف ایک ہے اور شہزادے شہزادیاں بھی اسی ملک میں پائی جاتی ہیں۔ اب ابھی کل عرب دنیا کے دو چار شہزادوں کی تصاویر چھپی ہیں۔ صرف یہ بتانے کے لیے کہ سعودی شہزادے کو کچھ نہیں ہوا‘ وہ ماشاء اللہ تندرست ہیں۔ خدا لگتی کہیے‘ یہ شاہی خاندانوں کے چشم و چراغ ہم سے ’’عامی‘‘ نہیں لگتے۔ ان میں شہزادوں جیسی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ گویا شہزادے شہزادیاں صرف ولایت میں ہوتی ہیں۔ اسی شادی میں مجھے ایک دوسری بات بھی نظر آئی وہ امریکی دلہن کا پس منظر کہ وہ وہاں کی مشہور اداکارہ ہے۔ یہ تصویر کا ایک اور رخ ہے۔ امریکہ کے پاس شہزادے شہزادیاں نہیں ہیں۔ انہوں نے ان کی جگہ ایک نئی مخلوق گھڑی ہے۔ جسے وہ گویا خفیہ طور پر ذی وقارفضیلت مآب اور نامور سمجھتے ہیں۔ اس کی علامت ہالی ووڈ ہے۔ ہمارے ہاں جب نیا نیا ٹی وی آیا‘ میرا مطلب نجی ٹی وی تو میں بھی اس سے وابستہ ہو گیا۔ وہاں میں نے پہلی بار ایک انگریزی لفظCelebrityکو ایک خاص معنوں میں سنا۔ مرے لیے تو اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ جسے معاشرے میں عزت و احترام کا ایک مقام حاصل ہو۔ اور ان لوگوں میں مرے لیے اہل دانش سب سے اہم تھے۔ عسکری ‘فیض‘فراق‘ کرار حسین میرے لیے سلیبرٹی تھے‘ مگر اس شعبے میں آج تک اس لفظ کے سزا وار ہمارے ٹی وی فلم کے اداکار اور ماڈل ہوتے ہیں‘ اس لیے شاید میں اس لفظ کا درست اردو مترادف دے نہیں پا رہا۔ بیسیوں لفظ سوچے ہیں مگر شاید ’’غیرت اور حمیت‘‘ مانع آتی ہے۔ کیسے مان لوں پروفیسر کرار حسین سلیبرٹی نہیں ہیں اور کوئی رمشا خاں یا کیا نام ہے اس بی بی کا‘ وہ سلیبرٹی ہے۔ بہرحال یہ آج کا چلن ہے۔ ہونا ہو‘ یہ تصور ہمارے ہاں امریکہ سے آیا ہے۔ میں نے مغرب سے آیا نہیں کہا امریکہ سے آیا کہا ہے۔ امریکیوں نے شہزادے شہزادیوں کے مترادف اپنے ہالی ووڈ سے منسوب کر دیے انہوں نے جہاں تہذیب و ثقافت کے ساتھ گھپلے کیے ہیں وہاں نفسیات کے بابا آدم نے انہیں خواہ مخواہ تو بد صورت و قبیح نہیں کہا تھاugly Americans. ۔اس نے اس تہذیب کے باطن میں جھانک کر دیکھ لیا تھا۔ ان دنوں یہ بحث تھی کہ ہونے والی شہزادی کی رگوں میں شاہی خون دوڑ رہا ہے یا اس کا تعلق عامیوں Commonsسے ہے۔ شاید چند برس پہلے کہا جاتا کہ وہ تو ایک اداکارہ ہے۔ یہ بات منفی انداز میں کہی جاتی تھی۔ اب مگر امریکیوں نے اس شعبے کو باوقار بنا دیا ہے۔ سلیبرٹی کا رتبہ دے دیا ہے۔ یعنی تسلیم شدہ پسند کیے جانے اور تسلیم کیے جانے والے نامور لوگ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب ان کا کلچر بھی سکہ رائج الوقت ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں ہی دیکھیے یہ کلچر ہماری نام نہاد اشرافیہ میں کیسا مقبول ہوا ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ چند برس پہلے معزز خاندانوں کے افراد خاص کر خواتین ایسا لباس پہنتی جیسا اس کلچر بلکہ لائف سٹائل میں پہنا جاتا ہے(میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ امریکیوں نے کلچر کو مار ڈالا ہے‘ اب وہ لائف سٹائل کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ تصور تو اب یورپ والوں نے بھی اپنا لیا ہے) ساری قدریں بدل گئیں امریکہ میں ابھی چند لوگوں موجود ہوں گے جو پرانی تہذیبی قدروں کے دلدادہ ہوں گے وگرنہ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ان کی ماڈل اہلیہ کے بارے میں طرح طرح کے سوال نہ آتے کہ کیا وہ امریکہ کی خاتون اول ہوں گی مگر اب تو ایک امریکی اداکار برطانیہ کے شاہی خاندان کی رکن ہو گئی ہے۔ دیکھا امریکہ نے کیسے اپنا سکہ چلا دیا ہے۔ ویسے اب شاہی خاندانوں میں شادیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اب ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ دنیا کس سطح پر آ گئی ہے۔ اب آپ اداکارہ یا ماڈل کو شہزادی کی جگہ رکھیں اور اپنے پرانے تصورات کو توڑ پھوڑ دیں کہ اب حیوانیت کا دور ہے۔ عوام کا دور ہے۔ عوام کی پسند اب ہالی ووڈ ہے۔ ریمپ پر چلتی ہوئی لڑکیاں ہیں۔ جو ناموری اور شہرت کی سزا وار ہیں۔ اب کا ہے کو کوئی ارسطو‘ شیکسپئر ‘ گوئٹے یا آئن سٹائن پیدا ہو گا۔ اب تو انہی کی پوجا کرو انہی کو پسند کرو۔ یہ میں کوئی اس شعبے کے خلاف مقدمہ نہیں بنا رہا ہوں۔ صرف یہ بتا رہا ہوں کہ ہماری قدریں اب کہاں آ پہنچی ہیں۔ ایک بار بحث ہو رہی تھی ادب و شاعری پر جانے کس نے کہا تھا‘ شاید میں نے کہا ہو گا کہ اس قسم کی نکتہ آفرینی مری عادت رہی ہے۔ فیض اور فراز کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ میں دونوں کے بارے میں بعض شعری و ادبی وجوہ کی بنیاد پر فقرے کستا رہتا ہوں۔بات اس پر آ کر رکی کہ فیض تو پھر بورژواتھا۔ یہ فراز تو پیٹی بورژوا ہے۔ دونوں کی محبت کا تقابل کر لو۔بورژوا کی تو پھر بھی اپنی قدریں ہوتی ہیں‘ یہ پیٹی بورژوا ٹین ایجر‘ انڈر گریجوایٹ والی محبت نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ۔تہذیب و ثقافت کو سمجھناہے تو اپنی شاعری کو سمجھئے۔ مگر اس طرح نہیں جس طرح ہم ہالی ووڈ کی اداکارہ کو برطانیہ کی شاہی روایات کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ خدا اس شادی کو کامیاب کرے۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا میں تو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ معاشرہ اندر اندر سے کتنا بول رہا ہے۔ ہم کوئی شاہی روایات اور استعماری کلچر کے حامی نہیں ہیں مگر وہ تو پھر اور بات تھی‘ اب جو لوگ ہمیں ذی وقار و ذی حشم بتائے جاتے ہیں انہوں نے ان لوگوں پر سے اعتبار اٹھا دیا ہے جو سچ مچ معاشرے کا مان ہوتے ہیں اور جو تہذیبوں کی جان ہوا کرتے ہیں۔ اللہ ہماری مدد کرے اب یہی ہمارا لائف سٹائل ہے اور دنیا صرف لائف سٹائل کا نام ہے۔