وسیب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک تنظیم وجود میں آئی ہے جس کا نام عوامی تریمت تحریک ہے ۔خان پور شہر کے ساتھ ساتھ نواحی گائوں دھریجہ نگر میں بھی تقریب کا اہتمام ہے۔تحریک کی چیئرمین محترمہ عابدہ بتول ہیں اور تحریک کی معاونت نذیر لغاری ،شاہد جتوئی اور سعید خاور جیسے سینئر کررہے ہیں۔انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کے حوالے سے جدوجہد کررہی ہے جوکہ خوش آئند بات ہے اور اس عمل کو وسیب کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ہمارے ملک خصوصاً وسیب میں دوسرے امور کے علاوہ خواتین کو علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ وسیب میں کینسر کا مرض سب سے زیادہ خواتین میں پایا جاتا ہے ۔ اکتوبر کا مہینہ ہر سال عالمی سطح پر چھاتی کے کینسر کی آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ہر سال لاکھوں خواتین اس مرض کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے موت کی منہ میں چلی جاتی ہے ۔ یہ مرض عام طور پر خواتین میں پایا جاتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بھی عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے، اس حوالے سے مختلف سیمینار ، کانفرنس ، اجلاس اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے،جس میں خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو مکی سطح پر خواتین کے حقوق کی تعمیر و ترقی کیلئے بہت سے اعلانات کئے جاتے ہیں مگر ان پر عمل بہت کم کیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن ایک اسلامی ملک میں خواتین کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جن کا اسلام نے تعین کیا ہے ، اس لئے ہمارے معاشرے کو مردوں کا سماج کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف رسم و رواج کے نام پر خواتین کا استحصال جاری رہتا ہے ۔عورت کمتر ، یہ فرسودہ تصور ہے، سیاست کا میدان ہو یا کھیل کا میدان ،سائنس یا ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا زندہ کا کوئی اور شعبہ خواتین نے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ۔اس کے باوجود خواتین سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔ غیرت کے نام پر ایک ایسا قانون بھی ہے جہاں جرم اگر بیٹا بھی کرے تو بھی مجرم صرف بیٹی ہے اوراگر جرم بھائی کرے تو سزا بہن کو ملتی ہے۔ جیسا کہ مختاراں مائی کا واقعہ تھا کہ پنچائت نے ایک مقدمے کو دیکھا، جس نے گواہوں کی شہادت کے بعد فیصلہ دیا کہ مختاراں مائی کے بھائی شکور نے عصمت دری کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی سزا اس کی بہن مختاراں مائی کو دی جائے، اس فیصلے پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا ۔ وسیب میں اس رسم کو ’’ کالا کالی ‘‘ بلوچستان میں ’’ سیاہ کاری ‘‘ اور سندھ میں ’’ کاروکاری ‘‘ کہا جاتاہے۔ نذیر فیض مگی مرحوم جوکہ 23اکتوبر کو فوت ہوئے ،آج ان کی برسی کا دن بھی ہے وہ سرائیکی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے ، نے ایک نظم ’’ کاروکاری ‘‘ لکھی ۔ مگی سئیں نے اس نظم میں باپ بیٹے کی آپس میں ہونے والے مکالمے کو نظم کی شکل دی ۔ نظم کو قصے کی طرح لکھیں تو بات زیادہ ہو جائے گی ، لیکن نذیر فیض مگی کی نظم میں باپ بیٹے کا مکالمہ یوں ہے : بیٹا :’’ ابا میری بہن کا گلا دبا کر کیوں مارا؟‘‘ باپ:’’ بیٹا ! عزت کی بات تھی ، بتانا کسی کو نہ ، تمہاری بہن غیر مرد کے ساتھ کھڑی تھی ۔‘‘ بیٹا : ’’ ابا ! غصہ نہ کرنا ، یہی جرم تو تمہارے بیٹے نے بھی کیا تھا ، اس کے لئے تو پگ لوگوں کے قدموں میں ڈال دی تھی ، بیٹیوں کے رشتے بھی دے دیئے تھے ۔ بیٹے پر سانس وار دی تھی ، اس کو کیوں نہ مارا تھا ۔؟‘‘ نظم اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے سرائیکی نظم ’’ کاروکاری ‘‘ حاضر ہے : چھوٹا ہک معصوم ایانْاں/دِل بَٖدھ پیو دے نال اَلانْاں/ابّا سئیں توں رَنج نہ تھیویں/گاٖل میڈٖی تے اَنج نہ تھیویں/میکوں ہک وسواس پیا کھاوے/مسئلہ میکوں سمجھ نہ آوے/بھیرو بھینْ کوں رَل مِل ساریں/گٖچی گُھٹ تے کیوں چا ماریے/بٖیٹھی ہوئی او وانْ بٖدھیندی/کہیں دا ہئی او کیا وگٖڑیندی؟/تیکوں حال میں ڈٖینداں بٖچڑا/سچی گاٖل ڈٖسینداں بٖچڑا/کہیں کوں ایہو حال نہ ڈٖسیں/لجٖ دی گاٖل اے گاٖل نہ ڈٖسیں/گزری رات کوں دھمی ویلھے/غیر جوان دے نال کھڑی ہئی/پاتی پیار دھمال کھڑی ہئی/اَبّا ! خوف خدا توں ڈٖریں/کاوڑ نہ کہیں گاٖل تے کریں/پَر تاں پیڑے پُتر وی تیڈٖے/ایہو جھاں ہک جُرم کیتا ہا/پرلی وستی ونجٖ پکڑیا ہا/اوندے سانگے/دَر دَر پَگٖوں رولیاں ہانی/چٹی دے وچ/سوہنْیاں دھیریں گھولیاں ہانی/پُتر توں ساہ چا واریا ہاوی/اونکوں کیوں نہ ماریا ہاوی ؟؟؟ ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑا المیہ دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لڑکا پیدا ہونے پر مبارکباد دی جاتی ہے جبکہ لڑکی پیدا ہونے پر برا محسوس کیا جاتا ہے حالانکہ بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے ۔ خواتین کی عصمت دری کے واقعات زیادہ تر پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں دیکھے جاتے ہیں ، جہاں تعلیم کا فقدان ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں نہ تو خواتین کو حقوق دیئے جاتے ہیں اور نہ ہی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے ، آج تک بھی پسماندہ علاقوں میں عورت کی قرآن کے ساتھ شادی کر کے جائیداد بچائی جاتی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کے انتخابات میں جیسنڈا آرڈرن کی لیبر پارٹی کی تاریخی فتح پر مبارکباد دی ہے ۔ یہ خاتون مبارکباد کی مستحق ہے کہ چند سال قبل ایک جنونی پاگل نے مسجد پر فائرنگ کر کے بہت سے نمازیوں کو شہید کر دیا تھا تو یہ خاتون تڑپ اٹھی تھی اور اس نے مسلمانوں سے صرف تعزیت ہی نہ کی بلکہ قرآن مجید کی تلاوت کرائی اور نیوزی لینڈ میں اذانیں دلوائی گئیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ میل شاؤنزم پوری دنیا میں موجود ہے ،مگر یورپ میں اس کے اثرات کم ہیں ‘ یورپ کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کے عمل میں شریک ہیںمگر ہمارے ہاں اس طرح کی صورتحال دیکھنے میں نہیں آتی ۔