معزز قارئین!۔ 14 مارچ سے پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ، نائب رسول ؐ فی الہند ، خواجہ غریب نواز، حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒ کے 807 ویں عُرس مبارک کی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے ۔تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’ غزنی کے سُلطان شہاب اُلدّین غوری 1191ء میں ترائین ؔکی پہلی جنگ میں پرتھوی راج چوہان سے شکست کھا گیا تھا۔پھر خواجہ غریب نوازؒ نے غوری ؔکے خواب میں آ کر اُسے فتح کی بشارت دِی تو ، 1193ء میں غوریؔ نے پرتھوی راج چوہان پر فتح پا لی تھی۔ پھر اجمیر اور راجستھان کے کئی علاقوں کے لاکھوں ہندوئوں نے خواجہ غریب نوازؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرلِیا ۔ اُن میں اجمیر میں آباد میرے آبائو اجداد بھی شامل تھے۔ جب مَیں نے ہوش سنبھالا تو، میرے والد صاحب ، تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان نے مجھے خواجہ غریب نوازؒ کی برکتوں سے متعارف کرایا۔ 1960ء میں مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا جب ،مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیا ۔ پھر مجھے خواجہ غریب نواز ؒکے یہ اشعار پڑھنے اور اُنہیں سمجھنے کا موقع مِلا کہ … شاہ ہَست حُسینؑ، پادشاہ ہَست حُسینؑ! دِیں ہَست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہَست حُسینؑ! سَردَاد ، نَداد دَست ، در دَستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہَست حُسینؑ! یعنی۔ ’’ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسینؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔ مَیں 1969ء میں سرگودھا سے لاہور شِفٹ ہوگیا تھا ۔11 جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنا روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور جاری کِیا ۔1980ء کے اوائل میں میرے خواب میں ،خواجہ غریب نوازؒ ،میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو ،وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکتوں سے میرے ،مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔ ستمبر 1983ء میں مجھے خواب میں کسی غیبی طاقت نے دلدل سے باہر نکالا اور مجھے بتایا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے!‘‘۔ ستمبر 1991ء میں مجھے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ دورۂ سعودی عرب میں خانۂ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ہُوئی اور مجھے دو صحافی دوستوں کے ساتھ ، پاکستانی سفارتخانہ کی گاڑی میں مدینہ منورہ میں گاڑی سے اُتر کر ، پیدل چل کر اور زمین پر بیٹھ کر ’’ سارے جگ توں نِرالیاں ، ’’مدنی سرکارؐ دِیاں گلیاں ‘‘ دیکھنے کا اعزاز حاصل ہُوا۔ جولائی 2001ء میں مَیں ’’آگرہ سربراہی کانفرنس ‘‘ میں صدر جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا ۔کانفرنس طویل ہوگئی تو صدر پرویز مشرف اور اُن کے وفد کا دورۂ اجمیر ؔملتوی ہوگیا۔ مجھے بہت دُکھ ہُوا لیکن جون 2004ء میں میرے دوست (اُن دِنوں) وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود کے ذاتی اثر و رسوخ سے مجھے بھارتی سفارتخانے سے دہلی ،چنڈی گڑھ اور اجمیر شریف کا "Visa" مِل گیا ۔ مَیں تو نہال ہوگیا ۔ خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں حاضری کے بعد مجھے اجمیر شریف کی گلیوں اور محلّوں میں بھی گھومنے پھرنے کا موقع مِلا۔ مَیں تصّور میں ، اجمیر شریف کے کسی گوشے میں خواجہ صاحب ؒ کو اپنے40 مریدوں کے ساتھ ہندی زبان میں تبلیغ اِسلام کرنے کا منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ’’ وہاں میرے بزرگ بھی ہندی زبان ؔمیں خواجہ غریب نوازؒ کا واعظ سُن رہے ہوں گے ؟۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے حکم کے مطابق ہندوستان آنے کے بعد خواجہ غریب نوازؒ نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ کے دربار میں چلّہ کاٹنے کے بعد اپنے مُریدِ خاص (بعد ازاں خلیفہ ) حضرت خواجہ قطب اُلدین بختیار کاکیؒ اور چند دوسرے مُریدوں کے ساتھ 4/5 سال ملتان میں رہے اور وہاں اُنہوں نے ہندی ، سرائیکی (پنجابی) اور کچھ دوسری علاقائی زبانیں سیکھی تھیں ۔معزز قارئین!۔ اجمیر سے وطن واپسی پر مَیں نے ’’آئو سارے رَل کے چلّیئے، خواجہ جی ؒدے ڈیرے جی !‘‘کے عنوان سے لکھا کہ … نِکّے، لِسّے ربّ توں رحمت، منگن، سنجھ سویرے جی! قومی دولت، کھا جاندے نیں، ڈھاڈے لَم ، لمیرے جی! …O… قاضی ، مُلّاں، رجّ کے کھاندے، زردہ پلاء حلویرے جی! حال مُریداں دا بھَیڑا اے، جِیویں بھُکھّے بٹیرے جی! …O… اثرؔ چوہان، دُعا واں منگِئیے، ربّ ساڈے دِن ، پھیرے جی! آئو سارے رَل کے چلِّیئے، خواجہ جیؒ دے ، ڈیرے جی! معزز قارئین! پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر فتح یاب سُلطان شہاب اُلدّین غوریؔ بہت سا مال و دولت لے کر خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہُوا تو، خواجہ صاحبؒ نے اُسے حُکم دِیا کہ ’’یہ سارا مال و دولت بلا لحاظ مذہب ومِلّت اجمیر کے غریبوں میں بانٹ دو!‘‘۔ غوریؔ نے ایسا ہی کِیا۔ دوسری بار غوری پھر بہت سا مال و دولت لے کر حاضر ہُوا۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’ یہ مال و دولت میرے کسی کام کا نہیں !‘‘۔ غوری نے کہا حضور کوئی اور حُکم؟۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’مقتول پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گوبِند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!‘‘۔ غوری ؔنے کہا کہ’’ حضور !۔ وہ تو غیر مسلم ہے ؟ ‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ’’ فاتح مُسلم قوم کی طرف سے مفتوح ہندو قوم کو یقین دلانا ضروری ہے کہ’’ فاتح قوم ۔ اِنسان دوست ہے!‘‘۔ سُلطان شہاب اُلدّین غوری نے ایسا ہی کِیا۔ معزز قارئین! مجھے یقین ہے کہ ’’ حضرت قائداعظمؒ نے بھی خواجہ غریب نواز ؒکی حکمت عملی اختیار کر کے قیامِ پاکستان کے بعد ایک ہندو ۔جوگِندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا وزیر قانون بنا دِیا تھا ۔ خواجہ غریب نوازؒ فارسی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے ۔ آپؒ کا ایک شعر ہے … در مجلسِ مسکیں مُعینؔ ، یکدم نشیں صدور بچیں! بنگر چہ ، دُرہائے ثمیں ، دادست دریائے دِلم! یعنی۔ ’’غریب و مسکین مُعینؔ کی مجلس میں ایک لمحہ کے لئے بیٹھ جا اور موتی چُن لے ، اِس وقت تمہیں اندازہ ہوگا کہ میرے دریائے دِل نے کیسے قیمتی موتی نکالے ہیں؟ ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مجھے جب بھی خواجہ غریب نوازؒ سے متعلق کسی مجلس یا الیکٹرانک میڈیا پر کچھ دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو، مجھے وہاں سے بھی خواجہ صاحبؒ کے ’’دریائے دِل سے بہت سے موتی نکالنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ 13 مارچ کو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش ؒ کے دربار میں واقع خواجہ غریب نوازؒ کے ’’حجرہ ٔاعتکاف ‘‘ کی رسمِ غُسل ادا کی گئی اور سماع ہال ؔمیںصوبائی وزیر اوقاف پیر سیّد سعید اُلحسن کی صدارت میں ’’تصّوف سیمینار ‘‘کا انعقاد ہُوا ، جس میں اُنہوں نے ،سیکرٹری اوقاف ذوالفقار احمد گھمن اور ڈائریکٹر طاہر رضا بخاری کے علاوہ کئی اکابرین نے خطاب کِیا۔ میرے دو ’’ہم قلم دوستوں ، برادران ‘‘ سیّد شاہد رشید اور امتیاز احمد تارڑ ، اُس پروگرام کو بہت ہی پسندیدہ قرار دے رہے تھے ۔ معزز قارئین!۔ حضرت امیر خسروؒ سمیت ہندی ، اردو اور پنجابی کے کئی شاعروں نے حضور پُر نُور صلی اللہ علی و آلہ وَسلم ،مولا علی مرتضیٰ ؑ ، آئمہ اطہار ؑ اور اولیائے کرام ؒ کو اپنا محبوب بناکر اور خُود عورت کا رُوپ دھار کر اُنہیں مخاطب کِیا ہے ۔ مَیں نے بھی اِسی طرح کی جسارت کی ہے ۔’’ خواجہ جی بنے، مورے مِیت ،رے!‘‘کے عنوان سے میری درخواست کے تین بند یوں ہیں … اَن مُولت سگرے ،بِھیت رے! گیا کارا ،کارا ، اتِیت رے! مَیں تو گائوں پریم کے گِیت رے! خواجہ جی بنے ، مورے مِیت رے! …O… خواجہ نے بٹھایا ،چرنوں میں! مَیں تو بِھیگو ں ،پریم کے جَھرنوں میں! یونہی جائے ، جِیون بِیت رے! خواجہ جی بنے ، مورے مِیت رے! …O… جگ کو اُجیارا ، دیں خواجہ! اُپدیش نیارا، دیں خواجہ! سندیش ہے ،اُن کا، پرِیت رے! خواجہ جی بنے ، مورے مِیت رے!