عربی زبان میںانسانوں کی اس قابل رحم کمیونٹی کے افراد کیلئے’’ خنثیٰ ‘‘کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ انگریزی زبان میں یہ Transgenderجبکہ پاک وہند میں خواجہ سرَا، ہیجڑے اور کُھسرے جیسے ناموں سے پکارے جاتے ہیں ۔کیا ہم نے کبھی غور کیاہے کہ حقیقت میں خواجہ سرائوں کو بھی وہی شرف حاصل ہے جو دیگر انسانوں کو حاصل ہے ؟کیاہم نے کبھی یہ سوچاہے کہ ہمارے مذہب اسلام نے اس کمیونٹی کے افراد کا کتنا لحاظ کیاہواہے ؟ میں جب بھی اپنے آپ سے ایسے سوالات کرتاہوں تومجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی میں ملتاہے ۔ مجھے یقین ہے اس بے رحم سماج میں بہت کم ایسے لوگ ہونگے جو اس کمیونٹی کے افراد کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ تومیرے خیال میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہونگے جوان بے چاروں کو ان کے شرعی حقوق کا دفاع بھی کرینگے ۔ان لوگوں کے ساتھ پہلا اوربڑاظلم ان کے اپنے والدین کرتے ہیں ۔ اپنے دیگر بچوں کی طرح ان کی تعلیم پرتوجہ دی جاتی ہے اورنہ ہی ان کو وہی پیار ومحبت دیتے ہیں جو دیگر بچوں کی طرح ان کا بھی حق بنتاہے ۔ گھر میں جب والدین اپنے خواجہ سرا اولاد کے ساتھ امتیازی رویہ رکھتے ہیں تو اسی گھر میں ان کے بہن بھائی اور گھر کے دوسرے افراد بھی ان سے نامناسب سلوک برتناشروع کردیتے ہیں۔اس غیرمنصفانہ سلوک ہی کا نتیجہ آخر یہ نکلتاہے کہ خواجہ سرا بدترین احساس کمتری اور محرومی کا شکار ہوکریاتوخود اپنے گھر کو خیرباد کہہ دیتے ہیں یا ان کو گھر سے بھگادیاجاتا ہے۔یہی وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں یہ لوگ اپنے لئے ایک الگ دنیا آباد کرکے اپنے حقیقی والدین اور اقرباء سے مستغنی ہو جاتے ہیں۔ اب جب ان کو اپنے حقیقی ماں باپ دھکارتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ گھر سے باہر بھی ان کی دوٹکے کی عزت اور وقعت باقی نہیں رہتی۔ جس چند پیسوں کی خاطر بیہودہ حرکات کرنے، شادیوں میں ناچنے اورجسم فروشی تک کے دھندوں میں ملوث ہوجاتے ہیں ۔دیکھا جائے توہماری شریعت نے خواجہ سرائوں کو باقاعدہ طورپراپنے اپنے علامات کی بنیاد پر ان کے حقوق متعین کردیئے ہیں۔ شریعت نے اس کمیونٹی کے لوگوں کوبنیادی طورپردو انواع میں تقسیم کردیا ہے اور ہر نوع کے اپنے اپنے حقوق متعین ہیں۔ مثلا ً پہلے نوع کو خُنثیٰ غیرمشکل جبکہ وسرے کو خُنثیٰ مشکل کہاجاتاہے ۔ اول الذکر یعنی خنثیٰ غیرمشکل ان خواجہ سرائوں کوکہتے ہیں جن میں مردوں کے علامات واضح ہوں جبکہ دوسری صورت میں یعنی عورتوں کے علامات کے ظہور کی وجہ سے ان پر عورتوں کے احکامات لاگو ہوتے ہیں ۔اس اعتبار سے مرد کی طرف مائل خواجہ سرا کو میراث میں عورت کے مقابلے میں مرد کی طرح دگناحصہ ملے گا۔اسی طرح اس کانکاح صحیح ہوگا ،شہادۃ ، قضاوت ، اذان اقامت ، نمازیوں کی صف میں کھڑا ہونا ، حج واحرام ، قذف ، تکفین وغیرہ سب میں وہ مردکی طرح شمار ہوتے ہیں ۔جبکہ دوسری صورت یعنی عورتوں کے علامات پائے جانے کی صورت میں ان کاحکم عورتوں جیساہے، یوں میراث میں مردکے مقابلے میں اس کو نصف ملے گا ،اسکا نکاح مرد کیساتھ صحیح ہوگا ، اسی طرح باقی معاملات میں بھی اسے عورتوں پر قیاس کیاجائے گا۔نوع ثانی یعنی’’ خنثیٰ مشکل‘‘ ان خواجہ سرائوں کو کہتے ہیں جن میں نہ تومکمل طور پرمردوں کی علامات ظاہر ہوںاور نہ ہی عورتوں کے ۔ اس تردد کی وجہ سے شریعت نے اس کا بھی پورا پوارا لحاظ کرتے ہوئے ان کے حقوق کاتعین کیاہے ۔ شریعت نے اس نوع کے(خنثیٰ مشکل ) خواجہ سراکواکثر مسائل میں عورتوں کی کیٹیگری میں شمار کیاہے۔مثلاًمیراث میں اس کو عام عورتوں کی طرح مردوں کے حصے کا نصف حصہ ملتاہے۔ اسی طرح موت کے بعددفناتے وقت خنثیٰ مشکل کو لڑکی کے طور پر دفنایاجائے گا، وغیرہ۔محکمہ شماریات کے مطابق اس وقت پاکستان میں موجود خواجہ سرائوں کی کل تعداد محض دس ہزار چارسو اٹھارہ ہے ۔ لیکن ستم ظریفی دیکھ لیجیے کہ ہم بائیس کروڑ آبادی رکھنے والے اس اسلامی ملک سے دس ہزار خواجہ سرا افراد بھی سنبھل نہیں پاتے ۔ نہ صرف ان کے حقوق کا استحصال اور ان کے شرف انسانیت کوہم نے اپنے پاوں تلے روند ڈالا ہے بلکہ آئے روز ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوتے ہیں اور ان کو طرح طرح کی اذیتوں سے بھی گزارا جاتاہے ۔ پچھلے سال لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک گریجویٹڈ خواجہ سرا مارویہ کو ملک کے ایک مقامی ٹی وی چینل نے نیوز کاسٹر کے طور پر متعارف کرکے ایک قابل مدح مثال قائم کردی۔اپنے ایک انٹرویو کے دوران مارویہ کا کہناتھا کہ مذکورہ ٹی وی چینل میں انہیں ملازمت ملنے کی خبر سن کر میں نے خوشی سے چیخ تو نہیں ماری لیکن میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کیونکہ جو خواب میں نے دیکھا تھا اس کی پہلی سیڑھی میں چڑھ گئی ہوں۔انھوں نے کہا کہ ان کے گھر والوں نے انھیں میٹرک تک تعلیم تودلوائی لیکن اس کے بعد انھوں نے مجھ سے تعلقات ختم کردیئے۔بڑی خوشی کی بات ہے کہ میں پاکستان کی پہلی خواجہ سراہوں جو اس وقت نیوز کاسٹر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہوں۔مارویہ کا مزید کہناتھاکہ ان کا خواب ہے کہ وہ اپنی برادری کے لوگوں کیلئے کچھ کریں۔انھوں نے مزید کہا کہ ان کی جدوجہد ہے کہ اگر کسی ماں باپ نے کسی خواجہ سرا بچے کو گھر میں نہیں رکھنا تو عزت دار طریقے سے اس بچے کا جو جائیداد اور دیگر حصہ بنتا ہے وہ دیا جائے۔ تاکہ وہ بچہ سڑکوں پر مانگے اور غلط کام کرنے پر مجبور نہ ہو‘‘۔ وقت آیاہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں خواجہ سرائوں کی قابل رحم برادری کے ساتھ تیسرے اور چوتھے درجے کے انسانوں کاسلوک مزید موقوف ہو۔اول تو والدین میں یہ شعور وآگہی پھیلاناناگزیرہے کہ وہ اپنے پیاروں کو محض شرم کی بنیادپر الگ تھلگ اور اوباشوں کی دنیا کی راہ دکھانے سے گریزکرے ۔اسی طرح ریاست کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ خواجہ سرائوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں اپنا ریاستی فریضہ ادا کرکے ایک فلاحی ریاست کا ثبوت دے۔