خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی کے پی آر او ڈاکٹر سجاد کی محبت کہ وہ ایک عرصے سے یونیورسٹی آنے کا تقاضا کررہے تھے ۔قاضی ابوبکر راحت کا شکریہ کہ وہ یاد دہانی کراتے رہے ۔گزشتہ روز اپنے عزیز زبیر دھریجہ اور آصف دھریجہ کے ساتھ یونیورسٹی پہنچے تو ڈاکٹر سجاد کے ساتھ اصغر ہاشمی( رجسٹرار )،ڈاکٹر صغیر احمد( ایڈیشنل رجسٹرار)، ڈاکٹر محمد بلال (سربراہ شعبہ فزکس) ،انور فاروق (چیف لائبریرین)، ڈاکٹر ظہور مزاری (اسسٹنٹ رجسٹرار)،ڈاکٹر زاہد (سربراہ شعبہ اردو ) نے خوش آمدید کہا اور یونیورسٹی کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں آگاہ کیا ۔یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کررہی ہے ۔ڈاکٹر اصغر ہاشمی نے بتایا کہ طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر یونیورسٹی کیلئے 500 ایکڑ رقبہ مزید درکار ہے اور یہ رقبہ حکومت کی خصوصی توجہ سے ممکن ہوسکتا ہے اور یونیورسٹی ملحقہ علاقے میں مل جائے تو یونیورسٹی کیلئے بہت بہتر ہوگا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یارخان وسیب کے طلبہ کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ خواب کی طرح مختصر عرصے میں اس یونیورسٹی نے تکمیل کے مراحل طے کئے ، یہی وجہ ہے کہ اس وقت وسیب کے ہزاروں طلباء ڈگری حاصل کرنے کے بعد پورے ملک میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی رینکنگ میں شامل ہوئی،سرائیکی وسیب میں اس کا پہلا نمبر ہے ، پنجاب میں اس کا پانچواں اور پاکستان میں 9واں نمبر آیا ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی دنیا کی ایک ہزار بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں شامل ہوئی ہے اور اس کا کریڈٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمدسلیمان طاہر اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو جاتا ہے ۔مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ یونیورسٹی نے کورونا کے دوران فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور غریب طلباء کی امداد کے ساتھ ذہین طلباء کو سکالر شپ بھی دیئے ۔ مجھے بتایا گیا کہ صوبائی وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت یونیورسٹی کے ترقیاتی کاموں کیلئے بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے موجودہ بجٹ میں یونیورسٹی کو خطیر گرانٹ دی ہے ۔اس موقع پر میرے ساتھ وفد کے دوسرے ارکان کو لائبریری اور دیگر شعبہ جات کا وزٹ کرایا گیا ۔چیف لائبریرین ڈاکٹر انور فاروق نے بتایا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر خواجہ فرید یونیورسٹی کی لائبریری کو ملک کی بہترین لائبریری بنانا چاہتے ہیں اور ہم موجودہ لائبریری کو جدید تقاضوں کے عین مطابق بہترین لائبریری بنانے جارہے ہیں۔شعبہ فزکس میں وزٹ کے موقع پر یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہاں سائنس کی تعلیم کے ساتھ عملی طور سینیٹائزر ،منرل واٹر ودیگر اشیاء تیار کرائی جارہی تھیں ۔ یونیورسٹی میں میڈیکل سنٹر میں اپنے پُرانے مہربان دوست ڈاکٹر مخدوم بشارت ہاشمی سے عرصہ بعد ملاقات ہوئی اور انہوں نے ملاقات کے دوران پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے ساتھ بے پناہ محبتیں دیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر محمدسلیمان طاہر سے ملاقات نہ ہوسکی کہ وہ یونیورسٹی میں موجود نہ تھے البتہ ہم نے یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر اصغر ہاشمی کو درخواست پیش کی کہ یونیورسٹی میں جس طرح اردو شعبہ قائم کیا گیا ہے اسی طرح سرائیکی شعبہ بھی قائم کیا جائے کہ وسیب کے گورنمنٹ کالجوں میں سرائیکی تعلیم کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے اور زکریا یونیورسٹی ملتان ،گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے سرائیکی کے ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کرائی جارہی ہے ،اسی بناء پر خواجہ فرید یونیورسٹی میں خواجہ فرید انسٹیٹوٹ آف سرائیکی ریسرچ لینگویج آرٹ اینڈ کلچر یا کسی دوسرے نام سے ادارے کا قیام یونیورسٹی کیلئے باعثِ افتخار ہوگا۔ اس موقع پر ہم نے اپنی درخواست میں یہ بھی لکھا کہ اس ادارے کے ذیلی ادارے 1۔سرائیکی ڈیپارٹمنٹ جہاں بی ایس،ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم ہو ۔2۔خواجہ فرید چیئر،شعبہ اقبالیات کی طرز پر فریدیات پر تحقیق کا کام کرے اور ایک شعبہ چولستان ریسرچ سنٹر کے نام سے بھی ہونا چاہئے جہاں چولستان کی تاریخ ،جغرافیہ اور اس آثار پر تحقیقی فریضہ سرانجام دے ۔رجسٹرار صاحب کی کمال مہربانی کہ انہوں نے میری درخواست وصول کی اور کہا کہ وائس چانسلر صاحب کی خدمت میں آپ کی درخواست پیش کی جائیگی اور انشاء اللہ یونیورسٹی رولز اور قوانین کے مطابق اس پر غور ہوگا۔ یہ اچھی بات ہے کہ یونیورسٹی میں سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ آرٹس کی تعلیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اردو ڈیپارٹمنٹ قائم ہوا ہے ، انگلش، فائن آرٹس اسلامک اسٹڈیز، پاکستان اسٹڈیز، فزیکل ایجوکیشن، انٹرنیشنل ریلیشنز، بی ایڈ کی تعلیم دی جا رہی ہے ، اس کے ساتھ ضروری ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ اور سندھیالوجی طرز کا ادارہ بھی خواجہ فرید یونیورسٹی میں قائم ہونا چاہئے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی آرٹ کلچر اور لینگویج کے ساتھ ساتھ مقامی آثار پر تحقیق ہوتا ہے ۔ اگر سائنس کے ساتھ آرٹس نہ ہو تو اس معاشرے میں انسان نہیں روبوٹ پیدا ہوتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ وائس چانسلر اس بارے توجہ کریں گے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ اور سرائیکیالوجی کا قدم ایک ایسا قدم ہوگا جس سے نہ صرف یہ کہ مقامی ادب و ثقافت فروغ پذیر ہوگا بلکہ اس سے مقامی زبان سائنسی علوم سے بھی منسلک ہو جائے گی ۔اس کے ساتھ خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی میں میڈیکل انجینئرنگ ،ایگریکلچرل کے شعبہ جات کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی توجہ درکار ہے۔ یونیورسٹی کی تاریخ کے حوالے سے عرض کروں کہ29مئی 2014ء کو یونیورسٹی کا ایکٹ پاس ہوا جوکہ 3صوبوں کے سنگم پر علمی حوالے سے ہوا کا تازہ جھونکا تھا۔اس موقع پر یہ بھی عرض کروں گا کہ رحیم یارخان یونیورسٹی خواجہ فرید کے نام سے قائم ہوئی کہ خواجہ فرید ڈسٹرکٹ رحیم یارخان کے قصبہ چاچڑاں میں پیدا ہوئے ، یہ ان کا ہوم ڈسٹرکٹ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خواجہ فرید کی وقف اراضی جو کہ ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے ، کا بہت بڑا حصہ ڈسٹرکٹ رحیم یارخان میں ہے،محکمہ اوقاف کی وقف اراضی میں سے ایک ہزار ایکڑ یونیورسٹی کو دے دیا جائے تو یہ کارِ خیر ہوگا۔اس علاقے میں زرعی یونیورسٹی کی بھی ضرورت ہے موجودہ حکومت زرعی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے ،نسلوں کی بہتری کے ساتھ حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا ۔