کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ ایک احساس وفا کی طرح بے قیمت ہیں ہم کو پرکھے نہ کوئی درھم و دینار کے ساتھ میرے پسندیدہ فکشن رائٹر جمیل احمد عدیل نے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے حوالے سے پوسٹ لگائی کہ 80برس کے ہو چکے مجھے مندرجہ بالا اشعار لکھنا پڑے کہ ’پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تجھ کو میر سے صحبت نہیں رہی۔ مگر ہمیں تو ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سے محبت رہی اور خوب رہی۔ آج بھی ان کے چہرے پر وہی معصومیت اور خوبصورتی ہے جو چالیس برس پیشتر تھی‘ یعنی جب میں نے یونیورسٹی آف دی پنجاب کے انٰگریزی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا تھا جہاں پروفیسر افتخار ‘ اسماعیل بھٹی ‘ رضی عابدی اور نوید شہزاد جیسے معتبر لوگ بہار کے پھولوں کی طرح مسکا رہے تھے میرے اساتذہ خواجہ صاحب کے لئے رطب السان تھے۔ پہلے ہی رابطے میں ہمیں یہ ٹھنڈی اور میٹھی آغوش میسر آ گئی اورنٹیل کالج کی اساطیری کنٹین جہاں برگد کی طرح کی بزرگی کا احساس موجود تھا ہماری پسندیدہ جگہ تھی۔ یہ ادب کا درخشاں دور تھا۔ اتوار کو کیفے ٹیریا اولڈ کیمپس پر ادبی نشست ہوتی۔کیسے کیسے لوگ اس میں شرکت کرتے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی شخصیت کے لئے باغ و بہار کا ایڈجیکٹو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اردو والوں سے معذرت کرنا ہے کہ مجھے لاحقہ اور سابقہ میں اکثر مغالطہ لگ جاتا ہے ویسے تو ایڈجیکٹو اسم تعریف میں آتا ہے۔ سرخ و سپید یعنی جسے Apple Colouredکہتے ہیں‘ نہایت متوازن انسان‘ مسکراتے ہوئے اور جب قہقہہ بار ہوتے ہیں تو آنکھیں میچ لیتے ہیں اور یہ لمحہ انہیں کیمرے میں قید کرنے والا ہوتا اب وہ 80برس کے ہو گئے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسی برس کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔ آپ ان کے پاس بیٹھ کر آسودگی محسوس کرتے ہیں‘ ایک خوشبو علم کی بھی ہوتی ہے۔ انہیں اپنے بے پناہ علم پر کوئی گھمنڈ نہیں کہ بقول غالب نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں ایک شعر کی تصحیح میں نے کی کہ: ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا لوگوں نے اعتراض کیا تو خواجہ محمد زکریا صاحب نے کہا سعد درست کہہ رہا ہے۔ اس میں ’’یہ‘‘ ہی ہے’’پہ‘‘ نہیں پھر انہوں نے مغلیہ شاعر شہزادے کا نام بھی بتایا جو فی الحال میرے ذہن میں نہیں۔ بات سیدھی ہے کہ ہمیں جب بھی کسی شعر کی سند یا سند کے لئے شعر کی ضرورت ہو تو فٹ ہم انہیں فون ملاتے ہیں۔ وہ تو شاید شعروں کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ قدرت نے انہیں بلا کا حافظہ دے رکھا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ شعر کا مفہوم بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ جیسے اقبال کا کلام انہوں نے سمجھایا ہے کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ نقاد ہی نہیں شاعر بھی ہیں اور انہوں نے لسان العصر اکبر الہ آبادی کی تتبع میں طنزومزاح کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا ہے۔ کاش وہ اوائل عمر میں ہی اس طرف آ جاتے مگر شاید انہیں شاعری سے بہتر کام کرنا تھے۔ مجید امجد کو مجید امجد انہوں نے ہی نہ تو بنایا کہ جیسے کوئی انوکھی شے دریافت کی جاتی ہے۔ ان کا یہ بہت بڑا حوالہ ہے کہ ایک عظیم شاعر کو پوری صحت کے ساتھ کلیات کی صورت پیش کیا جائے جسے ہمارے دوست صفدر حسین نے الحمد پبلی کیشن سے شائع کیا۔ میرا بھی یہ فخر ہے کہ ایک تقریب میں خواجہ صاحب نے کہا کہ مجید امجد کا سب سے اچھا انتخاب سعداللہ شاہ نے کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ خواجہ کے دو شعر تو میں آپ کو پڑھا دوں جو ان کے شعری مجموعہ آشوب میں ہیں: سوچا تھا جوانی میں دنیا کو بدل دیں گے دنیا نے مگر ہم کو چپ چاپ بدل ڈالا کیا خوب چل رہا ہے اس ملک میں یہ دھندا چندا برائے مسجد‘ مسجد برائے چندا آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کریں آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ کسی ادب سرائے میں بیٹھے لطیف فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ کئی مزے مزے کی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک مرتبہ وہ ہمیشہ کی طرح گریڈ انیس کے لئے سلیکشن بورڈ میں بیٹھے تھے۔ ایک سٹوڈنٹ لیڈر ٹائپ امیدوار کے طور پر آن بیٹھا۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ آپ دیوان غالب کی پہلی غزل کے پہلے شعر کی تقطیع کریں۔ امیدوار سٹپٹایا کہ یہ کوئی سوال ہے‘ آپ کوئی بڑا سوال کریں۔ خواجہ صاحب نے کہا درست پھر بولے آپ دیوان غالب کی پہلی غزل کے دوسرے شعر کی تقطیع کر دیں۔ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب خواجہ صاحب میرے پیچھے موٹر سائیکل پر سوار تھے اور ہم آتش جوانی میں ہوا پر سوار تھے۔ اچانک خواجہ صاحب نے موٹر سائیکل روکنے کو کہا میں نے موٹر سائیکل روکی تو خواجہ صاحب ہاتھ باندھتے ہوئے کہنے لگے شاہ صاحب میں آپ کے ساتھ سفر کا رسک نہیں لے سکتا۔ آپ تو اتنی تیز چلاتے ہیں۔ خواجہ صاحب کو استاد الاساتذہ کہا جاتا ہے اور ان کے شاگردوں کی تعداد یقینا لاکھ سے تجاوز کر گئی ہو گی۔ ان کے ہاں کام کے سلسلہ میں بہت مستقل مزاجی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نے ان کو چین سے بیٹھنے نہ دیا کہ ان کی ڈیمانڈ ہی اتنی تھی۔ انہیں وائس چانسلر مجاہد کامران نے ایک بڑے کام کے لئے درخواست کی تو خواجہ صاحب نے صبح و مساکی محنت کے بعد اسلامی اردو تاریخ مرتب کر ڈالی جو انہوں نے نہایت مہربانی سے مجھے بھی عنایت کی یہ چھ ضخیم جلدیں ہیں۔ انہوں نے حفیظ جالندھری عبدالحمید عدم اور کچھ اور لوگوں کے کلیات بھی مرتب کئے۔ وہ اورنٹیل کالج میں بھی وقت دیتے ہیں اور مغربی پاکستان اردو اکیڈمی کے وہ آل ان آل ہیں جس میں ادبی اور تنقیدی کتب شائع ہوتی ہیں۔ مجھے ادبی بیٹھک کی نشستیں بھی یاد آ رہی ہیں کہ جب وہاں خالد احمد بھی ہوتے تھے۔ نجیب احمد‘ رفیق غوری ‘ اعجاز کنور راجا اور دوسرے دوست یہ خالص علمی نشستیں تھیں۔ ایک اور خاص بات خواجہ صاحب کے حوالے سے یہ ہے کہ انہیں عروض پر مکمل دسترس ہے اور انہیں مجید امجد کے کلام کی تدوین کرنے میں اس صلاحیت اور علم نے بہت فائدہ پہنچایا کہ مجید امجد کے ہاں فعلن فعلن کی بحر سے بہت لوگ مغالطہ کھا گئے۔ خواجہ صاحب ادبی بحثوں میں بھی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً خواجہ صاحب میر کو اوریجنل شاعر سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے وہ اسے غالب پر ترجیح دیتے ہیں یہ بات وہ دلیل سے کرتے ہیں۔ انہوں نے فیض احمد فیض کے کچھ کلام میں بھی سقم نکالے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ وہ فن پر دسترس رکھتے ہیں۔ میرے پہلے شعری مجموعے ’’بادل چاند‘ ہوا اور میں‘‘ کا دیباچہ انہوں نے لکھا اور اس کے بعد بھی دو تین اور شعری مجموعوں کا بھی‘ مزے کی بات تو یہ کہ انہیں فارسی پر بھی دسترس حاصل ہے۔ وہ جاپان اور چین میں بھی اردو پڑھاتے رہے۔ اپنے چہرے مہرے سے وہ چینی اور جاپان میں بھی اجنبی نہیں لگتے تھے۔ ان کی زوجہ محترمہ لاہور کالج میں استاد تھیں اور شاید ان کے برابر کے گریڈ ہیں۔ خواجہ صاحب سے سیکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ ایک منظم شخصیت کے مالک ہیں۔ دفتری کام بھی خوب نمٹاتے ہیں۔ وہ بھی اشفاق احمد کی طرح انگریزی میں ڈرافٹنگ تک جانتے ہیں۔ بہرحال میں نے اپنی یادداشت کے زور پر قلم برداشت چند سطور لکھ دیں۔ خواجہ ہمارے عہد کا بانکپن اور علم کا مینارہ نور تھے۔