خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یارخان وسیب کے طلبہ کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ خواب کی طرح مختصر عرصے میں اس یونیورسٹی نے تکمیل کے مراحل طے کئے ، یہی وجہ ہے کہ اس وقت وسیب کے ہزاروں طلباء ڈگری حاصل کرنے کے بعد پورے ملک میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ خانپور کیڈٹ کالج12 سالوں میں بھی نہیں بن سکا، ہم کلاسوں کے اجراء کا مطالبہ کر رہے ہیں ، لوگ اینٹیں اکھاڑ کر لے جا رہے ہیں ۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کا ایکٹ 29 مئی 2014ء کو پاس ہوا ، یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب تھے ، جنہوں نے یونیورسٹی کی کامیابی کیلئے دن رات کام کیا ۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ یونیورسٹی ایکٹ پاس ہونے کے قریباً چار ماہ بعد یکم ستمبر 2014ء کو چار ڈگریوں میں کلاسز کا آغاز کر دیا گیا ۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کے قیام سے قبل وسیب میں کوئی یونیورسٹی نہ تھی ، یہ ٹھیک ہے کہ اس سے پہلے ملتان میں نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی 2012ء میں قائم کی گئی مگر ابھی تک یہ مکمل یونیورسٹی نہیں بن سکی اور نہ ہی اس کی عمارت بنی ہے ۔ جونہی خواجہ فرید یونیورسٹی بنی تو دیکھتے ہی دیکھتے طلباء کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ۔ ایک نئی یونیورسٹی میں سات آٹھ ہزار طلباء کے داخلے حیران کن بات تھی ۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ حکومت کی طرف سے دل کھول کر فنڈز دیئے گئے ، یونیورسٹی کے قیام کے موقع پر جو فنڈ جاری ہوا وہ 3 ارب 84 کروڑ 70 لاکھ تھا ، بھاری مقدار میں فنڈ اس بناء پر ملا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی چوہدری منیر ہدایت اللہ سے رشتے داری ہوئی تھی ، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی رشتے داری کی خوشی میں ایک تحفہ تھا جو کہ اہل رحیم یارخان کو ملا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یونیورسٹی کے ٹھیکوں پر تعیناتیوں کے سلسلے میں مقامی افراد کو شکایات ہوئیں اور بجا طور پر کہا جانے لگا کہ سب کچھ چوہدری منیر ہدایت اللہ کی ہدایت کے مطابق ہو رہا ہے ۔ مگر شکایات یونیورسٹی کے قیام کی خوشی میں دب گئیں۔ ڈاکٹر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر بن گئے ان کی جگہ گجرات یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر وائس چانسلر بن کر آئے ہیں ۔ یونیورسٹی کے قیام میں رحیم یارخان کے چوہدری منیر ہدایت اللہ کی کوششیں قابل ذکر ہیں مگر یونیورسٹی کو بہترین یونیورسٹی بنانے میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہرمحبوب کا کردار اہمیت کا حامل ہے، سابق وائس چانسلر نے بہتر کام کئے ، مگر کچھ کام ایسے بھی تھے جو ادھورے رہ گئے ، رحیم یارخان یونیورسٹی خواجہ فرید کے نام سے قائم ہوئی کہ خواجہ فرید ڈسٹرکٹ رحیم یارخان کے قصبہ چاچڑاں میں پیدا ہوئے ، یہ ان کا ہوم ڈسٹرکٹ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خواجہ فرید کی وقف اراضی جو کہ ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے ، کا بہت بڑا حصہ ڈسٹرکٹ رحیم یارخان میں ہے۔ خواجہ فرید کے نام سے یونیورسٹی بنائی گئی تھی تو اس میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ اور خواجہ فرید چیئرکا بننا بھی ضروری تھا ، وائس چانسلر نے یونیورسٹی کی طرف سے ایک دیوان فرید چھپوایا ، جو کہ اچھا عمل ہے مگر یہ دیوان تحریف شدہ اور متنازعہ ہے ‘ خواجہ فرید کے عقیدت مندوں کو خوشی کی بجائے کوفت ہوئی ۔ نئے وائس چانسلر نے آتے ہی یونیورسٹی میں تبادلوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے ساتھ درجہ چہارم کے بہت سے ایڈہاک اور ڈیلی ویجز ملازمین کو برطرف کر دیا ہے ، جس کی بناء پر یونیورسٹی میں تشویش کا ماحول پیدا ہو چکا ہے ۔ برطرف کئے گئے ملازمین ہر آئے روز جلوس نکال رہے ہیں اور وائس چانسلر کے ساتھ ساتھ گورنر ، وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ غریب ملازم رگڑے گئے ، کورونا نے پہلے ہی ملک کے حالات خراب کر دیئے ہیں ، عام آدمی سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہے ، ان حالات میں کسی بھی آدمی کو ملازمت سے برطرف کرنا زیادتی کے زمرے میں آتا ہے ۔مخدوم خسرو بختیار اور انکی بھائی ہاشم جواں بخت کے پاس اقتدار ہے ، ان کو ضلع رحیم یارخان میں زرعی یونیورسٹی بنوانے کے ساتھ موجودہ یونیورسٹی کے معاملات درست کرانے چاہئیں اور خانپور کیڈٹ کالج میں بھی کلاسوں کا اجرا کرانا چاہئے ۔ نئے وائس چانسلر کو کام کا موقع ملنا چاہئے اور یونیورسٹی میں چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھنے کی بجائے یونیورسٹی کی بہتری کیلئے بڑے کام کرنے چاہئیں اور سابق وائس چانسلر جو کام ادھورے چھوڑ گئے ، نئے وائس چانسلر کو ادھورے کام مکمل کرنے چاہئیں ، خواجہ فرید سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی ہے ، کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد کائنات کے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ مقامی تہذیب ، ثقافت اور زبان و ادب پر تحقیق کرنا شامل ہوتا ہے ، اسی بناء پر نہایت ضروری ہے کہ اس میں سرائیکی زبان کا شعبہ بھی شامل ہونا چاہئے کہ زبان کو بھی سائنس کا درجہ حاصل ہے اور پوری دنیا میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ انسان کا نام زبان اور زبان کا نام انسان ہے ۔ زبانوں کی ترقی تعصب نہیں بلکہ اس کا نام محبت ہے کہ زبان محبت کے اظہار کا وسیلہ ہے ۔ بارِ دیگر عرض کروں گا کہ ملازمین کے الزامات میں کتنی حقیقت کتنا فسانہ ؟ اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے اور یونیورسٹی کے معاملات کو درست کرنا چاہئے کہ یہ یونیورسٹی تین صوبوں کے سنگم پر ہونے کے باعث نہ صرف وسیب بلکہ پورے ملک کیلئے اہم ہے ۔ یونیورسٹی 220 ایکڑ پر مشتمل تھی ، اس میں 55 ایکڑ مزید لئے گئے اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے گزشتہ بجٹ میں یونیورسٹی کیلئے 5 ارب روپے مختص کئے مگر یونیورسٹی کو یہ فنڈز نہ مل سکے ۔ اسی طرح شیخ زید ہسپتال رحیم یارخان فیز ٹو کے لئے بھی پانچ ارب روپے مختص ہوئے ، ان میں سے بھی کوئی رقم جاری نہ ہو سکی ۔ اسی طرح 38 کروڑ روپے گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یار خان کے لئے مختص ہوئے ، وہ رقم بھی جاری نہ ہو سکی ۔ حالانکہ گزشتہ بجٹ کے موقع پر یہ وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اب وسیب کے لئے مختص ہونے والے فنڈ وسیب پر ہی خرچ ہونگے اور یہ واپس نہیں جائیں گے ۔ مگر فنڈز واپس چلے گئے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کورونا کی آفت آ گئی تھی ، اسی بناء پر فنڈز واپس ہوئے لیکن سوال اتنا ہے کہ کورونا تین ماہ کی بات ہے ، 9 ماہ حکومت کیا کرتی رہی اور وسیب کے لئے کتنے فنڈز جاری ہوئے ؟