جمہوریت میں اقتدار کی تمام راہیں عوام سے ہو کر گزرتی ہیں عوام ہی طاقت کا بنیادی مرکز ہوا کرتی ہے۔ یہ الگ بات کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ جمہوریت میں بندوں کو تولنے کے بجائے گننے کی کمزوری کی بھرپائی نظریہ کرتا ہے۔ مہذب معاشروںمیں نظریاتی ہم آہنگی سیاسی کارکنوں کو پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جہاں وہ اپنی فکر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے عوام کو اپنے نظریے کے گرد جمع کرتے اور اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ تحریک پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ تھا۔ مسلمانان ہند نے اس نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کیا آج بھی دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نظریات کی پذیرائی کی بنیاد پر اقتدار میں آتی ہیں۔ پاکستان کا مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستانیوں نے بانی پاکستان کے ساتھ نظریہ کو بھی دفن کر دیا اور سیاست محض اقتدار کا کھیل بن کر رہ گئی۔سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کوء نیا کھیل نہیں۔ اس کھیل میں اگر کچھ بچا تو دہ نظریہ ضرورت تھا ۔جن کو معاشرے کی اصلاح کا کام کرنا تھا انہوں نے مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا کر اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنا شروع کر دیا آپ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق پر لاکھ الزام دھریں مگر ان پر مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا سکتے لیکن یہ کسر ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کی باقیات نے پوری کر دی۔1990ء میں اس کی داغ بیل ن لیگ نے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کیلئے رکھی تھی اور اْس وقت ان سیاسی گھوڑوں کے محفوظ اصطبل کا نام چھانگا مانگا کے جنگلوں سے مشہور ہوا تھا جو بعد میں مشرف دور میں پٹریاٹ بنا اور نیب زدہ بیشتر گھوڑوں کو پیپلز پارٹی سے بغاوت کروا کر وزراء بنا دیا گیا۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے پاکستانیوں پر سب سے بڑا ظلم یہ کہا کہ سیاست میں پیسے کا استعمال کر کے اپنے کروڑوں ماننے والوں کو بدعنوانی کو ذہنی طور پر قبول کرنے پر مجبور کر دیا ۔میاں نواز شریف نے وزارت اعلیٰ بچانے کے لئے چھانگا مانگا میں اور آصف علی زرداری نے مری ریسٹ ہائوسز میں اراکین پارلیمنٹ کی منڈیاں لگائیں اورارکان پارلیمنٹ کی حیثیت عوامی نمائندوں کے بجائے بکائو مال، جو زیادہ بولی لگائے خرید لے کی سی رہ گئی۔آج پاکستان میں کہنے کو جمہوری پارلیمانی نظام ہے درجنوں سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی۔ مگر سچ وہی ہے جو چیف جسٹس گلزار احمد نے عیاں کر دیا۔’’ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نظر نہیں آتی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کوڈ کیئر نہیں ہونا چاہیے‘‘۔چیف جسٹس نے اپنے مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے الفاظ کا استعمال کیا ہے ورنہ یقینا ان کی زبان پر اجے سحاب کا یہ شعر ہوتا: جمہوریت کی لاش پہ طاقت ہے خند زن اس برہنہ نظام میں ہر آدمی کی خیر یہاں تو دولت کی طاقت نے جمہوریت کی لاش کو بھی برہنہ کر دیا ہے۔ یقینا چیف جسٹس کو اپنے مرتبے کا لحاظ تھا اس سے انہوں نے محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ’’ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر جمہوری رویے اپنانے چاہئیں۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں، جماعتوں کے سربراہان کے نام پر نہیں چلتیں بلکہ سیاسی مزاروں کی مرہون منت ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج چالیس برس گزرنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو’’ زندہ ہے بھٹو کا نعرہ نہ لگانا پڑتا‘‘ صرف پیپلز پارٹی ہی کیوں یہاں مولانا فضل الرحمن سے اسفند یار ولی، جمہوریت کے چمپئن محمود اچکزئی تک کو پارٹیاں وراثت میں ملی ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں میں 20 برس تک پارلیمان میں عوامی نمائندگی کرنے والے بلاول اور مریم کے پیچھے صرف ہاتھ باندھ کر ہی نہ کھڑے ہوں بلکہ میرا لیڈ میری لیڈر کے نعرے لگا کر ٹکٹ کے حصول کے لئے جتن کرنے پر مجبور ہوں وہاں لیڈر میں ڈکٹیٹر بننے کی خواہش کیوں جنم نہ لے۔ جلیل مانک پوری نے کہا ہے: خوب رویوں کے بگڑنے میں بھی ہیں لاکھ بنائو کہیں اچھوں کی کوئی بات بری ہوتی ہے یہ سیاسی پارٹیاں نہیں سیاسی مزار ہیں جہاں سیاسی وارث لوٹی دولت کے زور پر اپنے زر خرید سیاسی مریدوں کو قومی خزانہ لوٹنے اور قوم کو جمہوریت کادرس دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس نظام میںاختلاف رائے وہ گناہ کبیرہ ہے جس مرتکب ہونے پر اقتدار کی جنت حرام ہو جاتی ہے۔ ان حالات میںکون ہو گا جو اپنے سیاسی مرشد کے سامنے اختلاف کی جسارت کرے ۔حکومت کے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے منعقد کرانے سے جمہوریت مضبوط ہو گی نہ ہی سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ۔جب تک پاکستان میں سیاست کو اقتدار کے بجائے نظریات کے تابع نہیں کیا جاتا اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری رہے گا۔ بدقسمتی سے نظریہ غیر مرئی چیز ہوتا ہے جس کا تعلق انسان کی سوچ اور ضمیر سے ہے جب رضا ربانی جیسے بزرگ سیاستدان روتے ہوئے کہیں گے کہ ضمیر کی آواز کے خلاف پارٹی سربراہ کے حکم پر ووٹ دینے پر مجبور ہوا تو پھر جمہوریت نہیں صرف سیاسی پارٹیاں ہی باقی بچیں گی۔جمہوریت کا بیج تو سیاسی نظریات کی زمین پر اگتا ہے جس پر جمہوری رویوں کا میٹھا پھل لگتا ہے اس ثمر سے جمہور کے لیے ترقی و خوشحالی کے در کھلتے ہیں ۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پنپ ہی نہیں سکتی مگر اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنا ہو گا ۔ اسمبلیوں کے انتخابات کروانے یا اوپن بیلٹ سے سینیٹرز کے انتخاب سے جمہوریت کا بھلا ہونے والا ہے نہ یہ کام عوام پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے اسمبلیوں کے انتخاب سے پہلے سیاسی جماعتوں میں منصفانہ انتخاب کی داغ بیل ڈالنا ہو گی ۔ ایسے انتخابات جس میں عام کارکن کو پارٹی کی قیات کا موقع مل سکے۔ یہ کام عدلیہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں دوسری صورت میں سیاسی وارث اسی طرح دولت کے زور پر ڈکٹیٹر بن کر جمہور کو بچہ مجمورا بناتے رہیں گے۔