پہلے دو اشعار: خواب کم خواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے پہلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے یہ کائنات بہت حسین ہے اور اس میں حسین ترین خود انسان۔ یہ جمل کا پیکر اللہ کا شاہکار ہے۔ اللہ نے قسم اٹھا کر کہا کہ اس نے اسے حسین ترین پیدا کیا، وہ اشرف المخلوق کہلایا، پھر کیا ہوا، ہوا تو کچھ بھی نہیں اس کی اپنی نظر ہی نہیں گئی۔ اس نے وہ بات یوں سنی ان سنی کردی کہ جس نے خود کو پہچانا اس نے اللہ کو پہچانا۔ یہ دعوت فکر بھی تو اللہ کی طرف سے تھی۔ انسان ہی تو خدا تک پہنچنے کا زینہ ہے۔ پھر اس نے اپنی طرف نگاہ کیوں نہ کی۔ چلیے چھوڑیئے وہ خطا کا پتلا ہی تو ہے۔ پہلی غلطی اسی کو سمجھ لیجئے، بلکہ آخری غلطی بھی یہی ہے۔ اللہ نے اسے بڑی صلاحیتوں سے نوازا۔ وہ جس رنگ میں چاہے ڈھل جاتا ہے وہ ہر قسم کے حالات میں ڈھل جاتا ہے۔ مرکز کائنات بھی وہ ہے۔ اس کو ذہن و دل کی متاع دی۔ ایک کشمکش ہی ہے۔ کسی بات کو ذہن نہیں مانتا تو کسی کو دل۔ کسی بات پر ذہن مانع ہے تو کسی پر دل احتجاج کناں۔ ایک نفع و نقصان کے پیچھے کھڑا ہے تو ایک سود و زبان سے آگے۔ یہ کشمکش بندے کو فعال رکھتی ہے۔ اس نے آغاز ہی غلطی سے کیا اور پھر غلطی پر پچھتایا اور شاید یہ سہو پچھتانے کے لیے ہی تھا یا پھر اپنے ساتھی کا ساتھ نبھانے کے لیے۔ کئی خیال ذہن میں آئے ہیں۔ اقبال نے بھی تو کہا تھا ’’اسے انکار کی جرأت ہوئی کیونکر‘‘ اس سے آگے بات کرنا بے ادبی ہے مگر اقبال کی شوخی اپنی جگہ مگر کائنات کی بوقلمونی اور رنگارنگی اسی غلطی کی مرہون منت ہے، اس سے آگے کیا کہیں: گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا اے ماہتاب حسن ہمارا کمال دیکھ تجھ کو کسی بھی رنگ میں ڈھلنے نہیں دیا یہ خوبصورتی جسے Keats نے کہا کہ A thing of beauty is joy for ever ہائے ہائے مشتاق احمد یاد آئے: یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں آپ یقینا سوچتے ہوں گے کہ میں لکھتا چلا جارہا ہوں۔ اگر آپ واقعتاً ایسا سوچ رہے ہیں تو بہت تکلیف کی بات ہے۔ اگر آپ خوبصورتی کا تصور رکھتے ہیں اور اس تحریر سے آسودگی محسوس کررہے ہیں تو پھر آپ ایک خوبصورت آدمی ہیں۔ میرا مقصد بھی آج یہی تھا کہ آئو مل کر اپنے آپ کو محسوس کریں اور کائنات میں اپنے آپ کو رکھ کر دیکھیں۔ آپ کو منیر نیازی بھی یاد آئیں گے کہ ’’گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں۔‘‘ ہوا پھر یوں کہ اس خوشبو کے نشے میں انسان اپنے نفس کا ہوگیا۔ خوشی سے معروض کاراستہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ انسان کو صائع کی جانب متوجہ ہونا چاہیے تھا لیکن غفلت بھی تو کوئی شے ہے اور پھر خون کا ابال جس میں انسان خواہشات کے پکوڑے تلتا رہتا ہے اور سی سی بھی کرتا ہے۔ چلیے آپ پکوڑوں کا ذکر نہ کریں، مچھلیوں کا کرلیں جسے بنی اسرائیل بھی پانی کو الگ کاٹ کر ہفتہ کے روز پکڑتے رہے۔ اصل میں خوبصورتیوں کا خیال مجھے قطر کے تینوں اطراف سمندر اور اس میں کھڑی کشتیوں کو دیکھ کر آیا۔ قطر کے حوالے سے ایک بھرپور کالم تو میں پھر کبھی لکھوں گا۔ فی الحال تو یہ خیال آیا کہ انسان نے جنگل میں منگل کیسے کیا۔ اس کے اندر جو خوبصورتی رکھی تھی اس کے خدوخال اس نے مزین اور دیدہ زیب عمارتوں میں کیسے متشکل کیے۔ سمندر کو دیکھ کر ویسے بھی انسان سوچتا ضرور ہے۔ اس کی زندگی بھی پانی سے وابستہ ہے۔ تبھی سورۃ ملک میں اللہ نے کہا کہ اگر وہ اس پانی کو اس سے دور لے جائے تو کون ہے پانی کو اس تک لانے والا۔ انسان کے ساتھ کیسا دلچسپ معاملہ ہے کہ وہ نامکمل ہے۔ وہ مکمل ہو ہی نہیں پاتا۔ ایک تشنگی اس کے ہاں رہتی ہے اور یہی اس کے ہاں تنوع کا باعث ہے ’’ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا‘‘ ایک آرزو اور ایک تمنا اس کے شامل حال رہتی ہے۔ ناآسودہ خواہشات اس کی یادوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ ویسے یہ تشنگی اورپیاس سے نعمتوں کی قدر بھی کراتی ہے: جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ایک شعر عزیز نبیل کا ذہن میں آ گیا: عادتاً میں کسی احساس کے پیچھے لپکا دفعتاً ایک غزل دشت سخن سے نکلی ایک تلازمہ سوچ اورعمل کے ساتھ ساتھ ہے اور ہمارے اور کائنات کے مابین۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس ساری ہماہمی، رنگارنگی اور ہائو ہو کے پیچھے کیا سکیم چل رہی ہے۔ فانی کو تو فنا ہے۔ بقا تو اس کو ہے جو باقی ہے اور کیا کہیں: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں