عارف نے کہا تھا : راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے ۔یہ بھی کہا تھا : عقل جہاں رکتی ہے ، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے ۔ ناصر افتخار کی کتاب ’’خود سے خدا تک ‘‘ میں پروفیسر احمد رفیق اختر اس طرح دکھائی دیتے ہیں ، جیسے بلال الرشید کے کالموں میں ۔پتھر کو پارس چھو لے تو وہ سونا ہو جاتا ہے ۔ رہی مٹی تو وہ دائم مٹی ہی رہتی ہے ۔یہ ناصر افتخار کی کتاب سے چند اقتباسات ہیں ۔ مفہوم واضح کرنے کے لیے کہیں کہیں ایک آدھ لفظ بدل دیا ہے ۔ پڑھتے رہیے اور حیران ہوتے رہئیے کہ اہلِ علم کی صحبت آدمی کو کیا سے کیا کر دیتی ہے ۔ ’’دنیاوی محبت : انسان ساری زندگی ہر طرح سے کوشش کرتاہے ۔ ہر طرح کی محبت کو اپنی طرف مائل کرتاہے لیکن ہر محبت کچھ مدت کے بعد اسے پہلے سے بھی زیادہ تنہا اور اداس کرتی چلی جاتی ہے ۔ ایک پائیدار محبت کے حصول میں سرگرداں ، ہر لحظہ ناکام ہوتا انسان ہر آنے والے دن میں پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہوتا چلا جاتاہے ۔ انسان خوب جانتا ہے کہ محبت اگر پائیدار ہے تو صرف اللہ سے لیکن چونکہ اللہ سے بھاگنا اس کے نفس کی سرشت ہے ، اس لیے یہ اس پائیدار محبت کے حصول سے منہ پھیر کر دوسرے لوگوں سے امید وابستہ کرتا ہے ۔ پے درپے ناکامیوں پر غور و فکر کرنے کی بجائے انسان ان ناکامیوں کا، ان غموں کا عادی ہو جاتاہے او رآخر کار خودترسی کا شکار ۔ جہادِ اکبر : آسان ہوتا تو اسے جہادِ اکبر نہ کہا جاتا۔۔۔ نفس کی اذیت سے گزرنا چونکہ دکھائی نہیں دیتا ، اس لیے اسے نارمل سمجھ لیا جاتا ہے ،قبول کر لیا جاتا ہے ۔ ڈپریشن کے ہر بڑھتے ہوئے حملے کے فورا بعد زندگی میں کچھ ضروری تبدیلیاں کر لی جاتی ہیں ، ترامیم کر لی جاتی ہیں ۔ اپنے اردگرد دیکھیں کہ لوگ کہاں سے چلے تھے ، کیسے تھے ۔ چمکتے چہروں والے توانائیوں سے بھرپور ، ہنستے کھلکھلاتے ہوئے۔۔۔آج کس حال میں ہیں ؟ پھر اپنے آپ کو دیکھیے ، کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے ۔ یہ Depressionہے ، Anxietyہے ، stressہے ۔ یہ life forceکا زوال ہے ۔ ہر زندگی کا سب سے بھیانک خسارہ ہے ۔اس خسارے سے بچنا ہی جہادِ اکبر ہے ۔ اگرموت کے بعد سنائی دیتا: ڈپریشن اس بات کا اعلان ہوتاہے کہ انسان اپنے رب سے ہار گیا ہے اور اپنے رب سے ہار جانے میں مسئلہ کیا ہے ؟ یہ تو خوشخبری ہے ۔ بدبختی کی انتہا ہوتی ، اگر موت کے بعد سنائی دیتا ، مر کے اللہ سے ہار جانا؟ یا جیتے جی اللہ کے آگے سر تسلیمِ خم کرنا ؟ ہم آج جو بھی ہیں ، جس بھی حال میں ہیں ، اس کا ذمہ دار اور کوئی نہیں بلکہ صرف اور صرف ہم خود ہیں ۔ ہماری زندگی کی کہانی لکھنے والا اور کوئی نہیں۔ اس داستان کے مصنف ہم خود ہیں ۔ جو اپنے گناہ، اپنی غلطیاں مان لیتا ہے ، اس کا depressionختم ہو جاتا ہے ۔ ۔۔اللہ اداکاری سے نہیں ، اخلاص سے مائل بہ کرم ہوتا ہے ۔ منافقت:انسانیت کا کم سے کم تر درجہ یہ ہے کہ آدمی برا ہو تو سرِ عام ہو، ببانگِ دہل ہو۔ اتنی ہمت نہیں تو پھر خود کو ٹھیک کر لے ۔ اطاعت گزار ہو جائے، سر جھکا دے اور سب کے سامنے سچا ہو جائے۔ اللہ کے سامنے بھی ، اپنے اور دنیا کے سامنے بھی ۔پھر اس بات کی پرواہ چھوڑ دے کہ دنیا اسے کیا کہتی ہے لیکن ایک کام آدمی کو زیبا نہیں اور یہی و ہ کرتاہے ۔ایک چہرے پر اتنے چہرے سجا لینا ۔ یہ بھی یاد نہ رہے کہ اصل چہرہ کون ساہے ۔ یہ منافقت ہے اور منافقت حیوانوں سے بدترین کام ہے کہ کوئی حیوان بھی منافق نہیں ۔ چاہے جانے کی تمنا: ہم سب چاہتے ہیں کہ چاہے جائیں ۔ اسی لیے ہم کسی کو چاہتے ہیں ۔ ہمیں لگتاہے کہ کوئی ہمیں چاہے گا تو ہم مکمل ہو جائیں گے ۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے ہم تمنا رکھتے ہیں کہ کوئی ہم سے محبت رکھے تاکہ ہم’’ کچھ ‘‘ہو جائیں ۔ توبہ : زندگی یا تو اللہ کے ساتھ ہے ، یا اللہ کے بغیر ۔ یہ درمیان والی اذیت ختم کر دینا ہوتی ہے ۔ ایک حتمی فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ یا تو ہم اللہ کے ساتھ ہیں ، یا نہیں ۔ انسان کو زندگی میں ایک اصل توبہ کی بنیاد رکھنا ہے ۔وہی توبہ اصل ہے ، جو تمام بیتی زندگی پر کرلی جائے ۔ یہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہے ۔ اگر وہ جان چکا ہے کہ اب تک جو زندگی اس نے جی ہے ، وہ اندھے کی زندگی ہے تو ایسی زندگی کو کیا کرنا ہے ؟ ایک اصل توبہ ۔۔۔اور سب کچھ ٹھیک ۔ لوح و قلم تیرے ہیں :دنیا کی ہر شے کی محبت عارضی ہے ، محدود ہے ۔ اس پر دیوانہ وار فدا ہوجانا زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے ۔ رشتوں سے انس فطری ہے، لیکن دنیا سے کم از کم محبت ہی روا رکھنی چاہئیے ۔ ہر شے سے انس محدود ہونا چاہئیے ۔ عورت کا عشق، پیسے کی دیوانگی ، جائیداد سے محبت ، دنیا داری میں ہر وقت دیوانوں جیسی مصروفیت ۔ پاگل پن پیداہوتا ہے ، جب ہم اللہ کی دی ہوئی محبت کو اس کی عطا کر دہ لو َ کو حیاتِ دنیا پر نثار کرنے لگتے ہیں ۔ یہ محبت ، یہ عشق، یہ دیوانگی صرف اللہ کی ذات ِ عظیم کے لیے ہے ۔ نفس کو علم دینا ہوتاہے کہ اس خزانے کو اللہ کی یاد ، اس کی طلب اور محبت واطاعت ِ رسولؐ میں بادشاہ کی طرح لٹا کر، بادشاہوں کے بادشاہ کا گدا بن جائے۔ پھر آواز آئے گی ’’ یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں ‘‘ دعا : کبھی انسان شدتِ محبت سے دعا کرتاہے ، اپنے رب کے حضور آہ و زاری کرتاہے تو احساس ہوتاہے کہ کوئی اس کے ساتھ ہے ۔ یہ احساس شدید ہوتاہے ۔ دعا مانگنے والے کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنی دنیاسے کتنا دور چلا گیا ہے ، یہی محبت ہے ۔ دعا کے بعد ہمیں بہت دیر تک یہ احساس رہتاہے ، اطمینان رہتا ہے کہ اب ہمارا رب سب کچھ ٹھیک کر دے گا ۔ اللہ کی طرف سے یہ اس محبت کا فوری جواب ہے ۔ یہ ڈائریکٹinternetہے ، یہ hotlineہے ۔ فرار: مقامِ شکر ہوتاہے اس کے لیے ، جس کو Depressionیا Anxietyہو جائے ۔ یہ ایک چانس ہے زندگی کو مکمل طور پر بدل ڈالنے کا ۔یہ غور وفکر پر مجبور کرنے کے لیے ہے ۔ ضروری نہیں کہ بیماری ہر انسان کے لیے ایک مصیبت ، ایک curseہی بن کر آئے ۔ بیماری کے بھیس میں رحمت بھی چھپی ہوتی ہے ۔ ساری بات وصول کرنے کی ہے ۔ جو جیسا چاہے، اسے ویسا ہی ملتاہے ۔ کچھ لوگ بیماری میں مزید ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ہو جاتے ہیں ۔ کچھ اللہ کو پلٹتے ہیں ۔ ساری بات نصیب کی ہے ۔ اللہ سے دعا کرنی چاہئیے ۔ رشتوں سے بے زاری کیوں :کچھ دنوں ، کچھ مہینوں یا کچھ سالوں کے بعد رشتوں میں لطف ختم ہو جاتا ہے ۔ چہروں سے نقاب اتر جاتاہے اور ہم اٹک جاتے ہیں ۔ ہر انسان کے پاس محدود علم ہوتاہے ۔ اس محدود علم سے دوسروں کو ہر بار متاثرکرنے میں وہ ناکام ہوتاہے تو انا کی جنگ شروع ۔ دو ہم مزاج آدمی پہلی بار ملتے ہیں تو جوش دیکھنے والا ہوتاہے لیکن کچھ ہی مدت میں تمام نئی باتیں ایک دوسرے سے کہہ دی جاتی ہیں ۔ ۔۔پھر وہی باتیں لفظ بدل بدل کر دہرائی جانے لگتی ہیں ۔۔۔۔کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ بس اکتاہٹ ، بیزاری، کبھی لڑ لیا، کبھی ہنس لیا ۔۔۔جو شخص کبھی بہت خاص ہوا کرتا تھا، اب عام ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ عارف نے کہا تھا : راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے ۔یہ بھی کہا تھا : عقل جہاں رکتی ہے ، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے ۔