میاں محمد نوازشریف وزیراعظم تھے‘ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت تھی‘ بلوچستان میں بھی‘ سندھ حکومت سے کوئی خطرہ نہیں تھا‘ الٹا وہ مددگار تھے۔ پارلیمانی ایوان کے اندر اور باہر کی ساری سیاسی‘ مذہبی قوم پرست اور علاقائی جماعتیں وزیراعظم کے گرد حلقہ باندھے ،سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی تھیں‘ افواج پاکستان کے سربراہ صوبوں کے چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس‘ ضلعوں کی انتظامیہ‘ الیکشن کمیشن اور اس کے ممبران‘ چیئرمین نیب اسی پر بس نہیں‘ ملک بھر میں اعلیٰ عدالتوں کے ججز اور چیف جسٹس ان کے اپنے ادوار حکومت میں بنائے گئے تھے۔ حکومت کے گرد حصار میں کوئی رخنہ یا سوراخ نہیں چھوڑا گیا تھا۔ 2014ء عمران خان کی بے وقت یا قبل از وقت للکار نے سب کو ہوشیار اور چوکنا کردیا تھا‘ سبھی خوفزدہ ہورہے تھے‘ ہر کوئی اسے اپنا حریف سمجھ کر خار کھائے بیٹھا تھا‘ تب ان کا اتحاد آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ تر تھا۔ ہر طرح کے مالی‘ سیاسی‘ انتظامی اور قانونی وسائل سے مالا مال اس کے باوجود عمران خان تن تنہا انہیں گھیر گھار کے مرضی کے میدان میں اس مقام پر لے آیا کہ ان کی صفیں الٹ گئیں‘ طنابیں ٹوٹنے لگیں‘ ہوش مندی سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی بجائے افراتفری کا شکار ہو گئے‘ اقتدار چھن گیا‘ صفیں بکھر گئیں‘ شہسوار کھیت رہے‘ جو بچ گئے وہ بھاگ نکلے۔ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کی حمایت طویل تجربے‘ ہر حلقہ انتخاب میں بڑی تعداد تعاون‘ سول انتظامیہ کی وفاداری‘ فوج کی غیر جانبداری کے باوجود یہ ایک معمولی سی مصیبت اور جھوٹی سی بیماری کو جھیل نہیں پائے حالانکہ ان کے پاس بچ نکلنے کے ہزار طریقے اور بے شمار راستے تھے مگر انہیں صحیح راہ کیوں سجھائی نہیں دی؟ اگرچہ عمران خان ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کا مضبوط حریف تھا مگر یہ جس تیزی سے اس کے سامنے ڈھیر ہوئے اس کی متعدد وجوہات میں ایک وجہ دونوں کا ایک دوسرے سے مل جانا بھی تھا۔ ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات سے بہت پہلے پیپلزپارٹی سے جان چھڑانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی تھی‘ اس نے ماضی کے حریف دھڑوں میں صلح صفائی کروا کے ایک پلیٹ فارم پر لانے کا فیصلہ کیا۔ قیام پاکستان سے کئی دہائی پہلے سے پنجاب کا بڑا حصہ مثلاً میانوالی‘ خوشاب‘ سرگودھا‘ جھنگ‘ فیصل آباد‘ ساہیوال‘ وہاڑی‘ ملتان‘ ڈیرہ غازی خان وغیرہ ملتان کے زیر اثر تھے‘ اس پورے علاقے میں ملتان کی دوپارٹیاں یعنی گیلانی اور قریشی اپنا سیاسی رسوخ رکھتے تھے‘ گیلانی قائداعظم کے حامی بنے تو قریشی کانگرسی ہو گئے‘ الغرض سیاسی قیادت ان دھڑوں کے پاس تھی‘ ضیاء الحق نے ان دونوں کو اکٹھا کردیا مگر ہر حلقے میں ایک دوسرے کے حریف ہوتے ہیں‘ ہرٹائون میں دھڑے‘ لیڈروں کے مل جانے سے ان کے مفادات اور مخالفتین مٹ نہیں سکتیں‘ چنانچہ بلدیاتی انتخابات کے بعد گیلانی قریشی کا اتحاد کو جاوید ہاشمی‘ فخر امام‘ ناظم حسین شاہ‘ خاور علی شاہ اور دوسرے لوگوں نے چیلنج کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ ایک صدی کے حریف قائدین نوجوانوں سے شکست کھا گئے اور ملتان میں ان کا متبادل دھڑا وجود میں آ گیا اور پہلی کوشش میں پرانے سیاستدانوں کو شکست دے دی۔ اسی طرح گجرات اور اس کے نواح میں چوہدری ظہور الٰہی اور نواب زادے پرانے حریف تھے‘ ضیاء الحق نے ان کے درمیان بھی صلح کی کوشش کی تو چوہدری ظہور الٰہی نے کہا گجرات کے دونوں دھڑے آپ کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن آپ ہمیں اپنے علاقے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے دیں‘ اگر ہم آپس میں مل گئے تو دیکھتے ہی دیکھتے نیا دھڑا تیار ہو جائے گا اور ہماری سیاست ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ چنانچہ گجرات کی سیاست پرانی ڈگر پر برقرار رہی مگر ملتان میں نئی سیاسی حقیقتیں پیدا ہو گئیں،چنانچہ گیلانی، قریشی دھڑے اپنی سیادت برقرار نہ رکھ سکے لیکن گجرات کے چوہدری اب بھی علاقے بلکہ پنجاب بھر کی بڑی حقیقت ہیں۔ دونوں بڑی اور حکمران جماعتوں کے میثاق جمہوریت اور امریکہ کی سرپرستی میں اقتدار کی باریاں مقرر کرنے‘ مرکز اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں بنتے ہی عمران خان کی شکل میں تیسری قوت تیزی سے ابھر کرسامنے آئی۔ اکتوبر 2011ء لاہور جلسے نے ساری سیاسی جماعتوں کو خوفزدہ کردیا۔ 2014ء میں نواز حکومت کے خلاف دھرنے میں ساری جماعتیں اس اکیلے کے صف آرا ہوئیں۔ نتیجہ یہ رہا کہ ملک بھر کے ہر حلقہ انتخاب میں عمران خان ہی ان کا حریف تھا‘ حکومت کے گرد اکٹھے ہونے والے دھڑے ہیں جن کا حلقہ اثر کسی ایک علاقے‘ ضلع یا صوبے میں ہے لیکن عمران خان کی جماعت پر ایک کے مقابلے میں پہلے نمبر پر ہے یا دوسرے‘ آج تحریک انصاف واحد قومی جماعت ہے اور ماضی کی حکمران قومی جماعتیں علاقائی پارٹیاں بن چکی ہیں‘ اگر یہ پرانے حریف ملتان کے گیلانی اور قریشیوں کی طرح اکٹھے ہونے کی بجائے چوہدری ظہور الٰہی کی حکمت عملی اختیار کرتے تو عوام کے ووٹوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آ سکتی تھی مگر حکومت حاصل ہو جانے کے بعد وہی ایک قومی جماعت ہے جس طرح 70ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی تھی اور اس کے مقابلے میں ایک اتحاد مگر وہ اتحاد قومی جماعت ہرگز نہیں تھا نہ ہی اس کی قیادت پوری قوم کی نمائندگی کرتی تھی۔ بے نظیر کے ادوار حکومت اور اس پر آصف زرداری کی پرچھائیں نے پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکن کو مضطرب کر دیا تھا۔ 1997ء کے الیکشن میں عبرت ناک شکست کے بعد جب بے نظیر ملک سے فرار ہو کر خود اختیاری جلا وطنی میں چلی گئیں تو عمران خان کی ممبر سازی کی مہم اور طوفانی دورے وکلا کی تحریک میں موثر کردار کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا کارکن تیزی سے تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہو کر اس کا حصہ بنا کیونکہ راقم نے خود ضلع فیصل آباد میں یہ مہم شروع کی تھی، اس لیے اس سے پوری آگاہی رکھتا ہوں‘ ان دونوں کے اتحادی بننے کے بعد مسلم لیگ نواز کا کارکن اور اس کا مددگار تاجر‘ صنعتکار بھی عمران خان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس طبقے کی توجہ اور تحریک انصاف میںشمولیت کا نتیجہ ہی تھا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کو آرمی چیف جنرل کیانی کے ایما پر عمران خان سے ملاقات کرنا پڑی حالانکہ اس ملاقات کا مقصد عمران خان کی مدد کرنا نہیں بلکہ کسی خاص مدت کے لیے بہلائے رکھنا تھا۔ اب صاف نظر آنے لگا تھا کہ مستقبل کی سیاست میں عمران خان کا کردار بطور حکمران شروع ہونے کے قریب ہے۔