طے تو یہ تھا آج لکھا جائے گا چاہ بہار پر، چین، ایران اور بھارت پر اور اس کے خطے پر اثرات پر۔ مگر بھارت کا جنگی جنون اس قدر احمقانہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی حکومت اس طرح بھی خطے کو اور اپنے عوام کو جنگ اور بھوک کی طرف دھکیل سکتی ہے؟ 2017ء کی بات ہے ، اس وقت بھارت کا چیف آف آرمی سٹاف جنرل بپن راوت تھا۔ اس وقت وہ چیف آف ڈیفنس سٹاف ہے۔ تین سال قبل بھی بھارت کا چین کے ساتھ تنائو چل رہا تھا۔ جنرل صاحب میڈیا سے بات کررہے تھے۔ کہنے لگے ’’انڈیا کو اس وقت 2.5 محاذوں کا سامنا ہے‘‘۔ یعنی دو اور آدھا۔ اس بات پر بھارتی میڈیا میں اور بھارت سے باہر بھی بہت سے مضامین لکھے گئے۔ کالم اور اداریئے بھی۔ بال کی کھال اتاری گئی تو پتہ چلا کہ ایک لڑائی چین سے ہے، دوسری پاکستان سے اور آدھی لڑائی بھارت کو اپنے اندر درپیش ہے۔ بھارتی میڈیا میں دفاعی ماہرین نے فرمایا کہ دنیا کی بہترین ریاست بھی اگر ایک سے زیادہ فرنٹ کھول لے تو کامیابی ہاتھ سے پھسل جاتی ہے اور ناکامی سر کا تاج بن جاتی ہے۔مگر یہ تو شاید ٹپ آف دی آئس برگ تھا۔ ایسی دفاعی حکمت عملی اپنے ملک کے لیے تو زہر قاتل ہوتی ہی ہے جس خطے میں یہ ملک واقع ہو اس کے پڑوسیوں کو بھی اپنے وسائل کا رخ روٹی سے اسلحے کی طرف موڑناپڑ جاتا ہے۔ مودی سرکار نے اپنا سارا فوکس، وسائل اور مہارت مختلف فرنٹس پر تقسیم کر رکھے ہیں۔ Tactical اور Strategic ناکامیاں اس کے دروازے پر بلند آواز سے دستک دے رہی ہیں۔ Logistics کے جو مسائل ہیں وہ ایک الگ کہانی ہیں۔ چین، بھارت اور پاکستان جغرافیے کے جبر سے ایک ہی خطے میں واقع ہیں۔ بنگلہ دیش، افغانستان اور ایران بھی پڑوسی ہیں۔ پاکستان نے جب امریکہ پر اپنا انحصار ختم کرکے چین کے ساتھ معاشی تعاون کے لیے سی پیک کا ڈول ڈالا تو اس سے بھارت کو تکلیف ہونا تو فطری تھا۔ امریکہ اور اسرائیل کے دل میں بھی درد شروع ہوگیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے امریکہ نے جو کیا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ مگر اس معاشی حبس میں بھارت نے ہمیں بار بار للکارنا شروع کردیا اور بات جا پہنچی 5 اگست 2019ء تک۔ اس سے کشمیری بھی متاثر ہوئے ،ہم بھی اور چین بھی۔ بھارت میں مودی سرکار کے عقاب اس پر جشن کے شادیانے بجانے لگے۔ بھارت اتنا بدمست ہو اکہ پاکستان تو پاکستان، وہ چین کو بھی ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ چین نے حال ہی میں وہ قرضہ بمعہ سود چکا دیا۔ بھارت اور چین کی تجارت 86 بلین ڈالر کی تھی، بھارت نے اپنی احمقانہ پالیسیوں سے اس تجارتی حجم کی ایسی تیسی پھیر دی۔ بین الاقوامی تعلقات کی مشہور کہاوت ہے کہ ہر ملک کے خارجہ تعلقات اس کے اندرونی حالات کے عکاس ہوتے ہیں۔ بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ مگر کچھ امریکی اشارات ،کچھ اسرائیلی سرگوشیاں اور کچھ چودھراہٹ کی دیرینہ خواہش۔ مودی سرکار اپنی پہلی حکومت سے دوسری باری تک دو او رآدھا نہیں بے شمار محاز کھول چکی ہے۔ بھارت کے اندر بھی … بھارت کے باہر بھی۔ گلوبل کارپوریٹ خاصا طاقتور ہے۔ ان کے مطابق بھارت ، مڈل کلاس گاہک کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ مودی سے رابطے ہوئے اور ایک ڈیل کے تحت مودی اقتدار میں آگئے۔ دنیا کی کارپوریٹ اشرافیہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریاتی عزائم کا اندازہ نہ تھا۔ کارپوریٹ کی دنیا کا مذہب او رنظریہ صرف بزنس ہوتا ہے۔ ایک چائے بیچنے والا وزیراعظم بن گیا۔ مگر اس کے اور اس کی جماعت کے باطن میں کیسا ہندوستان انگڑائیاں لے رہا تھا؟ وہ کیا کرنا چاہ رہے تھے مختلف قومیتوں اور اقلیتوں کے ساتھ؟ کارپوریٹ کے ناخدائوں کو کچھ خبر نہ تھی۔ انہیں تب خبر ہوئی جب مودی پردہ سکرین پر آچکے تھے۔ کانگرس کارنر ہوگئی اور پھر بھارت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ ہندو سماج کا راج، ہندو نظریاتی اور مذہبی اکثریت کا قبضہ۔ مسلمان ہندوستان کی بڑی اقلیت ہیں۔ ان کے ساتھ اس وقت کشمیر میں اور ہندوستان بھر میں جو ہورہا ہے وہ 47ء سے پہلے والے قائداعظم کے خدشات کی عملی تفسیر اور تعبیر ہے۔ مگر بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف نے جو کہا ، وہ تو صرف ٹپ آف دی آئس برگ ہے۔ بپن راوت کی بات تو غزل کا مطلع ہے۔ پوری غزل تو خاصی دردناک ہے۔ بھارت کے لیے بھی اور خطے کے لیے بھی۔ ہندوستان میں تڑپتی، کراہتی اقلیتوں کے لیے ، بنیادی حقوق کے مظلوم چہرے کے لیے ، بے بس کشمیری بوڑھوں، بچوں اور جوانوں کے لیے ، با حیا کشمیری بہنوں کے لیے، کورونا کا شکار ان بے بس کشمیریوں کے لیے جو علاج سے محروم ہیں، ہندو نہ ہونے کی پاداش میں جتھوں سے پٹنے والوں کے لیے ، آگے بڑھیں تو بھارت کے مزید فرنٹس سامنے آتے ہیں۔ بھارت کی چین سے ’’محبت‘‘، انڈیا کی پاکستان سے ’’الفت‘‘ بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال کا ذکر ہی کیا۔ کیا بھارت خودکشی کے راستے پر گامزن ہے؟ المیہ یہ ہے کہ بھارت کے جنگی جنون ، او رچودھراہٹ کی شدید خواہش نے پاکستان کے سلامتی کے تصورات کو ڈیزائن کر رکھا ہے۔ بھارت جیسے بدمست ہاتھی کو نہ اپنے عوام کی بہبود کی پرواہ ہے نہ خطے میں دوسرے ممالک کی۔ اس کے عوام فٹ پاتھ پر سوئیں یا پلاسٹک کے گھروں میں رہیں ، کشمیری اس کے ہاتھوں بدترین جبر کے سائے تلے جئیں۔ جنرل بپن راوت کے مطابق صرف اڑھائی محاذ ہیں مگر بی بی سی کے مطابق بھارت خودکشی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بھارت خطے کے امن کو برباد کر رہا ہے۔ بات کہیں اتنی دور نہ نکل جائے کہ بھارتی عقاب بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں اور خطہ بیچارہ ہاتھ ہی ملتا رہ جائے۔ مستقبل کا حال جاننے کے لیے باطنی آنکھ کی نہیں … حال کے گہرے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے!!!