گزشتہ کالم میں تذکرہ تھا، غریب شہر میر حسن کی خود کشی کا جس نے غربت اور فاقے سے ڈر کر خود کشی کر لی اور آج تذکرہ ہے، امیر شہر کی خود کشی کا…، آج اخبار کے صفحہ اوّل پر ایس ایس پی راولپنڈی میاں ابرار حسین نیکوکارہ کی تصویر کے ساتھ ان کی خود کشی کی خبر نے مجھے عارف شفیق کا یہ مقبول شعر یاد دلا دیا کہ… غریب شہر تو فاقوں سے مرگیا عارفؔ امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی اور محض اتفاق ہے کہ اخبار کے بیک پیج پر بھی دو کالمی خبر کراچی کے ایک انجینئر کی خود کشی کی ہے جس نے اپنی ڈاکٹر بیوی کو قتل کر کے، پھر خود کو بھی گولی مار لی۔ اس کے ساتھ مجھے میر ہزار خان بجارانی کی خود کشی کی خبر یاد آتی ہے۔ اپنے قبیلے کا طاقتور سردار، ارب پتی سیاستدان ،پر تعیش زندگی گزارنے والے میر بجارانی نے ایک صبح اپنی انتہائی پڑھی لکھی بیوی کو قتل کر کے خود اپنے آپ کو گولی ماری۔ بظاہر خوش حال اور زندگی کی ہر نعمت سے آراستہ زندگی گزارنے والوں پر آخر ایسی کون سے اُفتاد پڑتی ہے کہ اپنے ہاتھوں زندگی جیسی انمول نعمت کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ ایس ایس پی راولپنڈی ابرار نیکو کارہ کی خود کشی کی وجوہات میں ابھی تک ’’گھریلو تنازع‘‘ کی وجہ سامنے آئی ہے لیکن یہ بھی کوئی وجہ ہے زندگی جیسی انمول نعمت کو اپنے ہاتھوں ختم کرنے کا۔ زندگی تو یوں بھی تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ گھریلو اور دفتری تنازعوں سے لے کر معاشرتی، سیاسی اور مذہبی تنازعوں تک۔ ایک لامتناعی سلسلہ ہے۔ اختلافات اور تنازعوں کا اور پھر یہاں ایسے ایسے لوگ زندگی کو اس جی داری سے جی رہے ہیں کہ ان کی ہمت اور مثبت سوچ کی طاقت پر حیرت ہوتی ہے جبکہ ایک بارسوخ پولیس آفیسر جو پولیس ٹریننگ کالج روات کا پرنسپل بھی تھا۔ جس کے پاس شاندار سرکاری رہائش گاہ تھی۔ پڑھی لکھی بیوی، دو خوبصورت بچے، عہدہ۔ پیسہ، طاقت، یہاں ایک اوسط درجے کا پاکستانی یہی خواب دیکھتا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ ایک اوسط درجے کے پاکستانی ذہن کے خواب کی اڑان بس یہیں تک ہے کہ عہدہ مل جائے، اختیار مل جائے اور خاندان، دوست احباب، آس پاس کے لوگوں پر ایک ٹہکا سا بنا رہے۔ یہ سارا ٹہکا ایس پی نیکوکارہ کے پاس تھا لیکن پھر بھی کوئی کمی ایسی تھی جو خلاء جیسی تھی جیسے کوئی بیورو کریسی کا اعلیٰ عہدہ بھی نہیں بھرتا، معاشرے میں اختیار اور طاقت کا خمار بھی نہیں بھرتا۔ دولت اور عہدے کی چکا چوند ہی اس خلاء کو نہیں بھرتی۔ تو پھر کیا شے ہے جو روح کے اس خلاء کو بھرتی تھی مگر جو اس کو میسر نہ تھی اور ایک کم نصیب شام ایس پی نیکوکارہ، اعلیٰ عہدے سے مزین، ایک سرکاری دفتر میں بیٹھ کر شام چھ بجے اپنی سرکاری پستول سے اپنے اندر گولیاں اتار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔ ایس ایس پی نے خود کشی کا ایک نوٹ بھی چھوڑا ہے جس پر لکھا ہے کہ ’’انسان خود کشی اس لیے کرتا ہے کہ جب وہ بیزار ہو جائے اور اسے اپنی تخلیق کی سمجھ آ جائے۔ جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رونا نہیں ہوتا‘‘۔ یہ سوسائڈل نوٹ پڑھ کر ہر باشعور شخص کو ایک جھٹکا لگے گا کہ ایک شخص جو حالات سے شکست خوردہ ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کررہا ہے۔ وہ خود کو اپنے سوسائڈل نوٹ میں سمجھدار لکھ رہا ہے اور کہہ رہا ہے اسے اپنی تخلیق کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔ خبر کے مطابق ابرار نیکوکارہ نفسیاتی عارضے، ڈپریشن اور شدید انزائٹی کے مریض تھے اور ایک نفسیاتی معالج کے ہاں زیر علاج تھے۔ خود کو اپنے ہاتھوں مارنے کی جو وجہ انہوں نے بیان کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شدید قسم کے Disillusions کا بھی شکار تھے۔ گھریلو تنازع کو خود کشی کی وجہ بتائی گئی۔ کراچی کے خود کشی کرنے والے انجینئر کا بھی اپنی ڈاکٹر بیوی سے جھگڑا چل رہا تھا۔ اس کی بیوی لڑ کر اپنے والدین کے گھر آ چکی تھی۔ انجینئر اسے منانے گیا اور پھر علیحدہ کمرے میں بیوی کو لے جا کر اس کے اندر گولیاں اتار دیں اور خود کو بھی مار لیا۔ مسائل کا یہ حل نکالا کہ باقی کے سب خاندان اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تا عمر مسائل کے ایک اذیت ناک گرداب میں چھوڑ دیا۔ زندگی کی تمام نعمتوں بلکہ لگژری سے آراستہ زندگیاں گزارنے والے جب حالات کے سامنے ہارمان کر اپنی زندگیوں کا اپنے ہاتھوں سے خاتمہ کرتے ہیں تو اس معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا سوال چھوڑ جاتے ہیں! کہ آخر ان کی زندگی میں ایسی کون سی کمی ہوتی ہے کہ تمام دنیاوی نعمتوں سے آراستہ زندگی بھی ان پر بوجھ بن جاتی لگژریز سے بھری زندگی میں ان کی روح میں ایسا کون سا خلا رہ جاتا ہے کہ جسے دنیا کی یہ مادی چکا چوند بھر نہیں سکتی۔ آج اس سماج میں ہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنی ہے۔ خود کشی کی ایسی خبروں کے بعد آنے والی فالو اپ خبروں اور تجزیوں میں بھی اس سنگین مسئلے کا سطحی جائزہ لے کر اس کی سطحی حل تجویز کیے جاتے ہیں۔ جیسے ایس پی نیکوکارہ کی خود کشی کے بعد فالو اپ تجزیوں میں یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ چونکہ پچھلے دنوں گوجرانوالہ سے بھی ایک بیورو کریٹ کی خود کشی کی خبر آئی تھی اور یہ کہ بیورو کریٹس میں چونکہ خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے تو اس کے حل کے لیے سرکاری سطح پر ہیلپ لائن بنانی چاہیے تا کہ بیورو کریسی کی فضا میں جو کام کا پریشر اور گھٹن ہے اس کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہونے والے افسران اس ہیلپ لائن والے پلیٹ فارم پر اپنے مسائل اور ذہنی دبائو کا اظہار کر سکیں اور انہیں اس ذہنی دبائو سے نکالنے والی ہیلپ لائن کا ایک پورا مددگار نظام ہو تا کہ افسران میں خود کشی کی وجوہات پر قابو پایا جا سکے۔ خود کشی جیسے سنگین عمل کو روکنے کے لیے مذکورہ بالا سوچ صرف مسئلے کے حل کے لیے سطحی طور پر مددگار ہو سکتی ہیں لیکن مکمل طور پر نہیں۔ خودکشیاں کیا صرف بیورو کریٹس میں ہوتی ہیں، کہ ان کے لیے ہیلپ لائن قائم کر کے آپ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس رجحان پر قابو پا لیں گے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ یقینا یہ ایک حد تک معاون ہے۔ ایسی ہیلپ لائن یا ایسا مددگار نظام ایک سیفٹی والو کی طرح کا کام دیتا ہے جس سے پریشر ککر پھٹنے سے بچ جاتا ہے لیکن ہمارا سوال تو یہ ہے کہ سماج کی سطح پر ایسی کونسی تحریک شروع کی جائے کہ زندگی میں بڑھتی ہوئی انزائٹی، ذہنی دبائو اور غیر ضروری معیارات تک پہنچنے کا پریشر کم ہو سکے۔ اگلے کالم میں ہم انہی جوابات کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے اس حوالے سے ایک سماجی تحریک برپا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج کی مادی ترقی کی دوڑ میں ہر دوسرا شخص ذہنی دبائو اور انزائٹی کا شکار ہے۔ خود کشی تو ایک انتہائی ردعمل ہے جس میں خودکشی کرنے والا ایک لمحے میں موت کے پار اتر جاتا ہے جبکہ شدید ذہنی دبائو میں زندگیاں گزارنے والے مسلسل ایک اذیت ناک کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔(جاری ہے)