نومبر کی پہلی تاریخ اور پہلا اتوار‘ عزیزوں کی ایک شادی میں شرکت کی۔ راولپنڈی کے عسکری کلب میں ولیمہ کی تقریب تھی۔ اس وقت کورونا دوبارہ سے پھیلنے کی خبریں آ رہی تھیں۔ ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے ساتھ ماسک رکھ لیے تھ۔ خیر اب ماسک تو گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک ضروری چیز ہو گئے ہیں۔ اوپن ایئر میں کینوپی کا بندوبست تھا۔ مہمانوں کے لیے میزیں بھی فاصلے پر لگائی گئی تھیں۔ جگہ کے اعتبار سے مہمانوں کی تعداد بھی کم رکھی گئی تھی مگر شادی کی بھرپور تیاری کے ساتھ ماسک لگانے کا اہتمام کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔ مہمانوں کو بٹھانے کے لیے بھلے فاصلے سے میزیں کرسیاں لگائی گئیں تھیں مگر عملی طورپر ایسی تقریبات میں فاصلہ برقرار رکھنا‘ مصافحہ اور معانقہ نہ کرنا ممکن ہی نہیں، سو دور و نزدیک کے رشتہ دار کورونا کے سارے ایس او پیز بھول کر میل ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ مصافحوں اور معانقوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بہرحال شکر ہے کہ خیریت رہی لیکن جوں جوں نومبر کا مہینہ گزر رہا ہے کورونا کے پھیلائو کی خبریں پھر سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دوست احباب اور رشتہ داروں میں سے بھی کورونا کے شکار ہونے کی خبریں آنے لگی ہیں۔ تعلیمی ادارے کھلے ہوئے بمشکل دو ماہ ہوئے ہیں کہ پھر سے کورونا کے پھیلنے کی خبریں آنے لگی ہیں جو والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیج رہے ہیں ان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہت سے والدین میں جنہیں ذاتی طور پر جانتی ہوں ایسے بھی ہیں جنہوں نے لاک ڈائون کھلنے اور سکول دوبارہ شروع کے بعد اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجا کیونکہ ہفتے میں دو یا تین دن کلاسیں ہیں جبکہ فیسیں اور سکول کے اخراجات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اساتذہ کی ہمت کو بھی سلام کہ جہاں ایس او پیز پر عمل کیا جارہا ہے وہاں اساتذہ ہمہ وقت ماسک لگا کر بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ بچے بھی ماسک لگائے کلاس میں بیٹھے ہیں۔ اکتوبر میں میرے بیٹے کی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ تھی۔ میں نے پرنسپل سے سوال کیا کہ ان حالات میں کوئی ایسی حفاظتی تدابیر یا دعا جو آپ خود کر رہی ہوں تو پرنسپل عنبرین شبانہ کہنے لگیں کہ جب سے سکول کھلا ہے میں روزانہ سارے بچوں ،ٹیچرز اور عملے کا صدقہ دیتی ہوں کہ اللہ اپنا کرم رکھے اور ہم سب کو وبا سے بچائے رکھے۔ انگریزی میڈیم سکول کی پرنسپل کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے دلی خوشی اور اطمینان ہوا کہ مشکل وقت میں ہم سب ایک دوسرے کی طاقت اور ڈھارس بنتے ہیں۔ یہ جذبہ یقینی طور پر صرف ایس او پیز فالو کرنے سے بڑھ کر تھا۔ اللہ کرے کہ ہم سب احساس ذمہ داری کا ثبوت دیں اور ایس او پیز پرعمل کریں جو وبا پلٹ رہی تھی وہ واپسی کا راستہ بھول جائے۔ وبا کا خوفناک پھیلائو‘ ایک ڈرائونے خواب جیسا لگتا ہے۔ جون اور جولائی کے مہینے وبا کے پھیلائو کے اعتبار سے پاکستان میں بہت تکلیف دہ رہے ہیں۔ بہت مشکل وقت تھا پھر اگست میں اللہ کے کرم سے کورونا میں معجزاتی کمی ہو تی ہوگئی۔ لوگ جس طرح مئی‘ جون‘ جولائی میں ایس او پیز پر عمل کر رہے تھے رفتہ رفتہ احتیاطی تدابیر میں غفلت برتنے لگے۔ میل ملاقاتوں میں ماسک پہننے کا اہتمام بھی کم ہوگیا۔ بس یہ ہماری قوم کا مزاج بھی ایسا ہے جب تک کوئی ڈنڈا سر پر نہ ہو تو احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوتا۔ کورونا کا ذرا سا خوف کم ہوا تو ایس او پیز پر عمل بھی ڈھیلا پڑ گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پھر سے وبا سر اٹھا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ماسک نہ پہننے پر جرمانہ ہوگا اور خود حکومتی جلسوں میں لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوئے ہر قسم کے فاصلے اور ایس او پیز کو روندتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم جب خود گیدرنگ میں ماسک نہیں پہنیں گے تو ان کی کہی ہوئی بات پر کون سنجیدہ ہوگا۔ ایک طرف حکومت شادی ہالوں کو بند کر رہی ہے‘ شادیوں میں مقررہ تعداد سے زیادہ مہمان بلانے پر پابندی ہے اور دوسری طرف حکومت نے جلسے جلوسوں کا سسلہ شروع کر رکھا ہے۔یہ کیسی حکومت ہے جو اپنے ہی قانون بنا کر اسے خود بھی توڑتی ہے۔ اپنے حکم نامے خود پر لاگو نہیں کرسکتی۔ اگر یہ سچ ہے کہ کورونا پھیل رہا ہے اور ہجوم سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے قدرے فاصلے پر رہنا چاہیے۔ ماسک پہننے چاہئیں تو پھر ہر قسم کے جلسے جلوسوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ حکومت کا تو ویسے بھی جلسے کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ انہیں ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا کہ وہ کنٹینر سے اتر چکے ہیں۔ اب حکومت میں ہیں‘ اب اپنے وعدوں اور دعوئوں کو عملی صورت میں کر کے دکھانے کا وقت ہے۔ ادھر اپوزیشن جماعتوں نے اکٹھ کر کے احتجاجی جلسے کرنا شروع کئے۔ ادھر حکومتی ایوانوں میں بھی جلسوں کے پورے شیڈول ترتیب دیئے جانے لگے۔ اپوزیشن کے احتجاج اور تنقیدی حملوں کا جواب‘ حکومتیں اپنی کارکردگی سے دیا کرتی ہیں جس کے لیے آج کل اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ڈیلیور کرنا، تو آپ کو کون روکتا ہے،بھائی ڈیلیور کرنے سے۔اختیار آپ کے پاس‘ زمام کار آپ کے پاس‘ پالیسی میکر آپ‘ خزانہ آپ کے ہاتھ میں۔ تو کریں ڈیلیور۔ لیکن کیا کریں کہ پونے تین سال میں ابھی ان سے اپنی ٹیم ہی نہیں بن رہی۔ بس بوٹی سے قیمہ اور قیمے سے بوٹی بنانے کی تبدیلی کئے جا رہے ہیں اور اس کو اپنے تئیں تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔ آپ کیبڑھک‘ ہر وعدے اور دعوے پر یقین کرلیا تھا۔ حالات تو کیا سدھرتے کہ جیسے حالات پہلے تھے اس میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی والی وارث ہی نہیں۔ عوام کا‘ اپوزیشن اور حکمران صرف جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں۔ پرسوں میرے گھر کام کرنے والی مددگار خاتون نے رندھے ہوئے لہجے میں بتایا کہ غریبوں کے لیے دکانوں پر حکومت نے جو سستا آٹا رکھوایا ہے اس کی 10 کلو والی بوری لے کر آئے تو اس میں سے کائی زرہ خراب آٹا نکلا۔ یہ تو حال ہے حکومت کی غریب پروری کا۔ سستے آٹے اور سہولت بازار کے نام پر غیر معیاری چیزیں فروخت کر کے غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اور وزیراعظم کے گرد خوشامد کی ایسی سائونڈ پروف دیواریں کھڑی ہیں کہ ان کی سماعتوں تک غریبوں کی دہائی نہیں جاتی۔ سچ کہتے ہیں عوام کا سارا درد اپوزیشن کے دلوں میں اٹھتا ہے اور اقتدار میں آتے ہی حکمرانوں کی سماعتیں پتھر کی ہو جاتی ہیں۔