بانیانِ پاکستان اور وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے جان اور مال کی قربانیاں دیکر پاکستان حاصل کیا تھا اُنہیں علم نہ تھا کہ یہ ملک بالآخر ایسے ناعاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے گا جو اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر اسے کبھی سکون کا سانس نہیں لینے دیں گے‘ کبھی آئین‘ قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس ملک کو خلفشار سے دوچار رکھیں گے۔ جب ملک میں جمہوریت نہ ہو تو ہمارے ملک کے سیاستدان جمہوریت کی بحالی کی خاطر اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ جب جمہوریت بحال ہوجائے تو اُسے ختم کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ ایک حکومت بنتے ہی اُسے ختم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔ یہ خُود کُشی کا راستہ ہے۔ آج پاکستان کی معاشی بدحالی اور گُونا گُوں مسائل کی بڑی وجہ یہ اکھاڑ پچھاڑ‘ سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیرکوئی ملک معاشی ترقی نہیں کرسکتا۔ سرمایہ کار ایسی جگہ پر اپنا سرمایہ نہیں لگاتا جہاں مستقبل غیریقینی ہو‘کچھ پتہ نہ ہو کل کیا ہوجائے لیکن جب سے پاکستان بنا ہے سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کر کھیلنا پسند نہیں۔ اپوزیشن میں رہنا گوارا نہیں۔ ریاستی اداروں کو اپنی دستوری حدود میں رہنا پسند نہیں۔ ایک بے تابی و بے قراری ہے جو انہیں لاحق رہتی ہے۔ اِن دِنوں ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسلام آباد پر یلغار کرنے کو پر تول رہی ہیں۔ وہ عمران خان کی حکومت کو جائز نہیں سمجھتے۔ اسے دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آج تک کسی حزبِ اختلاف نے کسی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کیا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے نزدیک ہر حکومت دھاندلی سے وجود میں آتی ہے‘ اِسے جلد سے جلد رخصت ہوجانا چاہیے۔ ہر اپوزیشن حکومت پر کرپٹ ہونے کا الزام لگاتی ہے۔ اسے ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔ ہر اپوزیشن کو ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان نظر آتا ہے۔ یہی حزب اختلاف کی پارٹیاں جب اقتدار میں جاتی ہیں تو وہی سب کام کرتی ہیں جو اُن کے مخالفین کرتے تھے۔ میوزیکل چیئرز کے اس کھیل سے کوئی پارٹی مستثنیٰ نہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ہو یا مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں۔ یہ عوام کو بے وقوف بنانے کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل ہے جو ستّر برسوں سے کھیلا جارہا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ملک کے وجود میں آنے کے صرف ایک سال بعد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قائدِ ملت لیاقت علی خان بھی چند سال بعد 1951 میں قتل کردیے گئے۔ اس دن سے آج تک اس ملک میں اقتدار کا گھناونا‘ بے رحم کھیل کھیلا جارہاہے۔ گو انیس سو پچاس کی دہائی میں حکمران اور سیاستدان اتنے کرپٹ نہیں تھے جتنا گزشتہ چند دہائیوں میں اُبھرے لیکن انہوں نے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہونے دی۔ اُن کے دل میں اقتدار میں رہنے کی ہوس اتنی شدید تھی کہ اُنہوں نے ملک کا بنیادی قانون ہی نہیں بننے دیا‘ اگر تشکیل پا گیا تو اسے قائم نہیں رہنے دیا۔ سول بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے غلام محمد اور اسکندر مرزا پر مالی طور پر بددیانت ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا لیکن اُنہوں نے جمہوری اور قانونی طریقہ سے کوئی حکومت چلنے نہیں دی تاکہ خود حکومت کرسکیں۔ حتّٰی کہ جنرل یحییٰ خان پر اخلاقی انحطاط کا الزام لگایا جاتا ہے‘ مالی بددیانتی کا نہیں۔ اُن کی اقتدار میں رہنے کی بُھوک نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ ہمارے سیاستدان بھی اقتدار کے اتنے حریص رہے ہیں کہ ہر غیرمنتخب طالع آزما کے ساتھ مل کر حکومت کے مزے لُوٹتے رہے۔ جب آئین کے مطابق کوئی منتخب حکومت وجود میںآتی ہے یہ ریاستی اداروں کے ساتھ ملک کر اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اقتدار کا یہ میوزیکل چیئرز آج تک چل رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سوا کوئی وزیراعظم ایسا نہیں جس نے پانچ برس کی مدت پُوری کی ہو لیکن اُنہوں نے بھی یہ عرصہ اپوزیشن کو جیلوں میں ڈال کر مکمل کیا۔ ایجی ٹیشن پر آمادہ مولانا فضل الرحمن 2018 ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ہاتھوں بُری طرح شکست کھا گئے تھے۔ یہ نتیجہ توقع کے عین مطابق تھا۔ خیبر پختونخواہ میں الیکشن سے پہلے کیے گئے اکثر عوامی سروے اور جائزے اس کی پیشین گوئی کررہے تھے۔ لیکن جیسا کہ ہمارے ملک میں ہمیشہ ہوتا ہے کہ ہارنے والا خوش دلی سے اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی دھاندلی کا الزام لگاکر اپنی ناکامی تسلیم نہیں کی۔ قانونی راستہ تو یہ تھا کہ مولانا الیکشن نتائج کو الیکشن ٹربیونلز میں چیلنج کرتے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارے ملک میں ہر سیاستدان اپنی ذات میں آئین‘ قانون اور عدالت سب ہی کچھ ہے۔خود ہی الزام لگاتا ہے‘ خود ہی فیصلہ صادر کردیتا ہے۔ حالات اس کے فائدہ میں جا رہے ہوں تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن جب حالات ناسازگار ہوجائیں تو سب کچھ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ملک بھر سے بمشکل تین فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور ہر الیکشن میں کم و بیش اتنے ہی ووٹ ملتے ہیں۔ جبکہ عمران خان کی پارٹی پر تیس فیصد سے زیادہ ووٹروں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ان الیکشن نتائج کو غلط ثابت کرنے کا کوئی ٹھوس‘ قانونی ثبوت ہے تواپوزیشن کو اسے عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے۔ گزشتہ ایک سال میں عمران خان کی مقبولیت میں خاص فرق نہیں پڑا بلکہ اقوام متحدہ میں کشمیر اور ُامت مسلمہ کے مسئلہ پر خطاب کے بعد اِس وقت اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ تین فیصد ووٹ لینے والی جماعت تیس فیصد ووٹ لینے والی پارٹی کو حکومت سے نکالنا چاہتی ہے! صبروتحمل وہ صفت ہے جس سے ہمارے ملک کے سیاست کرنے والے اکثر محروم ہی دکھائی دیے تو مولانا فضل الرحمن کیوں اقتدار سے باہر بیٹھ کر انتظار کریں۔ جبکہ ان کے پاس مدرسوںکے طلبا کی طاقت بھی ہے جسے وہ سڑکوں پر نکال سکتے ہیں‘ حکومت گرا نہیں سکتے تو کم سے کم اسے دباو میں تو لاسکتے ہیں۔ نواز شریف کو ریلیف دلوانے کو ایک سازگارفضا تو بناسکتے ہیں۔ ایساماحول جس میںنواز شریف ملک سے باہر جائیںتو عمومی طور پر لوگ قبول کرلیں۔