آج ہماری قوم کے سامنے ایک ہی بڑا سوال ہے۔ کیا پاکستان کو ایک آزاد‘ خود مختار ملک بننا ہے یا امریکہ کی نوآبادیات (کالونی)؟ قوم کو آئندہ دنوں میں یہ فیصلہ کرنا ہے۔ باقی باتیں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں۔سات مارچ کو امریکی حکومت نے ہمارے واشنگٹن میں مقیم سفیر کو باقاعدہ رسمی طور پرواضح پیغام دیا کہ عمران خان کو وزارتِ عظمی سے نہ ہٹایا گیا تو پاکستان کے لیے اچھے نتائج نہیں ہوں گے اور اگر اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ دھمکی پر مبنی سندیسہ دیے جانے کے اگلے روز ہی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کے خلاف تحریک ِعدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کروادی۔کسی آزادمملکت کے لیے اس سے بڑی توہین آمیز بات نہیں ہوسکتی کہ اس کے اندرونی سیاسی اقتدار کا فیصلہ دوسرا ملک کرے۔یہی سامراجیت کی تعریف ہے کہ ایک بڑاملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے ۔ اُن کا تعین کرے۔ڈھکے چھپے انداز میں امریکہ طویل عرصہ سے پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی کرتا رہا ہے لیکن اس کا عمومی چرچا نہیں ہوتا تھا۔ انیس سو سینتالیس میں ہم بظاہر برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوگئے لیکن مغربی سامراج کی تابعداری سے پُوری طرح جان نہ چھڑواسکے۔ جلد ہمارے حکمران طبقہ نے ہمیں امریکی سامراج کی غیر اعلانیہ نوآبادیات بنادیا۔ اُنیس سو پچاس کی دہائی میںملک پر انگریز کی تربیت یافتہ مغربیت پسند سول افسر شاہی کا غلبہ تھا۔ ہمارا حکمران طبقہ بھاگم بھاگ امریکہ پہنچا۔ فرمائش کی ہمیں گود لے لو۔ امریکہ کے کمیونسٹ روس اور چین کے خلاف بنائے گئے دفاعی اتحادوں سیٹو اور سینٹو میں شریک ہوگئے۔ امریکی فرمائشیں پوری کرنا جمہوری حکومت کے بس میں نہ تھا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ امریکہ نے بھارت کے زیر قبضہ لدّاخ میں سی آئی اے کاخفیہ اڈّہ قائم کردیا تاکہ چین کے علاقے تبت کی جاسوسی کی جاسکے۔اسی باعث اُنیس سو باسٹھ میں چین اور بھارت کے درمیان لدّاخ (ہمارے بلتستان اور کشمیر سے ملحق)میں لڑائی چھڑ گئی۔ جنگ میں بھارت کی حالت بہت خراب تھی ۔ جنرل ایوب خان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ چین نے ہمارے حکمرانوں کواشارہ کیا کہ فائدہ اٹھاؤ ۔ کشمیر آزاد کروالو۔ لیکن امریکی حکومت کا دباؤ تھا کہ پاکستان ایسی کوئی حرکت نہ کرے۔ ہم خاموش بیٹھے رہے ۔ آزادیٔ کشمیر کا نادر موقع گنوا دیا۔ اس موقع پر امریکی صدر کنیڈی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کا تنازع حل کروانے میں کردار ادا کریں گے لیکن جھوٹا ثابت ہوا۔پاکستان کی سلامتی خطرہ میں پڑ گئی۔ ہماری مقتدرہ‘ سیاسی اشرافیہ کے مائی باپ امریکہ نے ہمیں اسلحہ اور ہتھیار دینے سے انکار کردیا۔ پرانے اسلحہ کے پرزے دینے سے بھی انکار کردیا۔ پاکستان کی تمام مالی امداد بند کردی جو افغان جنگ تک بند رہی۔لیکن ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کے تلوے چاٹنانہ چھوڑے۔انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجیں داخل ہوئیں۔ امریکہ ہماری مدد کو نہ آیا۔ آج روس نے یوکرین میں فوجیں داخل کی ہیں تو امریکہ اورتمام یورپ یوکرین کی مدد کو پہنچ گئے ۔ روس کا مکمل معاشی بائیکاٹ کردیا۔ لیکن پاکستان اتناخوش قسمت نہ تھا۔ سفید فام مغربی سامراج ایشیائی اقوام کو کمّی کمین سمجھتا ہے۔ انڈیا نے پاکستان کے برعکس بین الاقوامی معاملات میں اپنی خود مختاری قائم رکھی۔ روس سے گہری دوستی کی۔ امریکہ سے بھی فائدے اٹھائے۔ ماسکو سے جدید ترین اسلحہ لیا۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی ۔ اس کی مدد سے صنعت کاری کو پروان چڑھایا۔ جدید تعلیم کو فروغ دیا۔ آج انڈیا دنیا کی بڑی معیشت ہے۔ ہم معاشی طور پردیوالیہ۔ ہم نے امریکہ کی غلامی کی۔ نہ تعلیم کو فروغ دیا۔ نہ صنعت کاری کرسکے۔ پاکستان میں تمام بھاری صنعتیں رُوس اور چین کی مدد سے لگائی گئیں۔ اسٹیل ملز ہو یا ہیوی مکینیکل کمپلکس‘ الیکٹریکل کمپلکس۔ امریکی امداد سے ہم نے امریکی کمپنیوں کا اسلحہ خریدا جس کے پرزے بھی وہ اب ہمیں دینے کے لیے تیار نہیں۔ یا اس خیرات سے ہماری اشرافیہ کے بچوں نے امریکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہاںکے شہری بن گئے۔ امریکی عطیات سے ہماری این جی اوز کے کرتا دھرتا کروڑ پتی‘ ارب پتی بن گئے۔جنرل مشرف کے دور میں کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد کا بیشتر حصہ غیر سرکاری تنظیموں کو ملتا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں پہلے کمیونسٹ روس کے خلاف جہاد کیا۔ اس کے بعد طالبان‘ القاعدہ کے خلاف۔ اس کے نتیجہ میں ہمارے ملک میں کلاشنکوف کلچر‘ ہیروئن ‘ افغان مہاجرین کے سیلاب کو فروغ ملا۔مغربی میڈیا کے ذریعے دوغلے پن کا الزام لگایا گیا۔ہمارے ہزاروں لوگ اس جنگ میں کام آئے۔ بے گھر ہوئے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اتنا غیرت مند ہے کہ دوبارہ امریکہ کی جھولی میں جانا چاہتا ہے کیونکہ اسے امریکی عطیات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نوّے فیصد افرادغریب‘ سفید پوش ہیں۔ انہیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں۔پاکستان میں کھانے پینے کی تمام اشیا مقامی طور پر پیدا ہوتی ہیں۔ کپڑے کے لیے کپاس ہے۔ ملیں ہیں۔ مکان بنانے کو سیمنٹ (چونے)کے پہاڑ ہیں۔غرض ہر بنیادی ضرورت کی شے ملک کے اندر موجود ہے۔ ملک کے دفاع کا سامان ہم چین ‘ رُوس کی مدد سے خود بناتے ہیں یا چین سے خریدتے ہیں۔ لیکن ہمارے امیر طبقہ کو عیاشی کے لیے بیرونی امداد چاہیے۔ ڈالرز چاہئیں۔ لگژری گاڑیاں باہر سے منگوانا ہوتی ہیں۔امپورٹڈ چاکلیٹ ‘ میک اپ کا سامان‘ پنیراور کتے‘ بلیوں کے کھانے کا سامان درآمد کرنا ہوتا ہے۔ اپنی عیاشی کے لیے یہ ملک کی خود مختاری گروی رکھتے آئے ہیں۔ایک لیڈر کہتے ہیں ہم بھکاری ہیں۔ دوسرے فرماتے ہیں کہ ہماری زندگی کی لائف لائن امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔اب عوام فیصلہ کریں۔ آزادی ‘ خود مختاری کی سادہ زندگی گزارنی ہے یاامیروں کی عیش و عشرت کے لیے ایک بار پھر امریکی غلامی میں جانا ہے۔