باب حِریم حِرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا تخلیق کار میں ایک کمی کا احساس ہمیشہ رہتاہے۔ یہ اچھی بات بھی ہے کہ تکمیل تو موت ہوتی ہے۔ ایک ادھورا پن ‘ کچا پن اور ایک آنچ کی کسر کچھ گنجائش چھوڑ دیتی ہے۔ اوریہی کچھ کہا جا سکتا ہے اس عجزو انکسار کے حوالے سے ہے۔ مگر بات کہنی ضرور چاہیے کہ بات آگے چلے۔ اس کے لئے یاروں کی محفل انگیخت کرتی ہے اور بات سمجھاتی ہے۔ درس سے فارغ ہوئے تھے آج خدیجتہ الکبریٰ پارک میں یوسف صاحب نے پرتکلف ناشتہ رکھا ہوا تھا۔ ناشتے میں کچھ دیر تھی کہ ڈاکٹر ناصر قریشی نے خودی کی بات چھیڑ دی کہ یہ حمید حسین صاحب کے درس سے متعلق بھی تھی مجھے بھی دعوت دی گئی کہ کم از کم اقبال کے مندرجہ ذیل شعر کو تو کھولا جائے۔ اسی محفل میں گویائی سلب ہو جاتی ہے کہ وہاں ڈاکٹر خضر یاسین جیسے لوگ بھی موجود تھے خیر اصرار ہوا تو شعر سامنے رکھا: خودی کا سر نہاں لاالہ ا لا اللہ خودی ہے تیغ‘ فساں لاالہ الا اللہ کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہ زمین حضرت سلطان باہوؒ کی ہے اور اقبالؒ نے بہت بعدمیں یہ غزل کہی۔ مگر اقبال کے مضامین اور زور بیاں نے اس زمین میں ایسی فصل اٹھائی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ خودی پر بھی بات کریں گے مگر پہلے یہ جان لیں کہ اس کے پیچھے جو راز پوشیدہ ہے وہ لاالہ الا اللہ ہے کوئی معبود نہیں مگر اللہ ، سارے جہاں کی نفی اور اللہ کا اثبات۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت سلطان باہو نے بھی کی تھی کہ ’’الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو۔ نفی اثبات دا پانی ملیا ہر اگے ہرجائی ہو‘‘ دوسرے مصرع میں اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان کی خودی اگر شمشیر ہے تو اس تلوار کو لاالہ الا اللہ کی فساں پرتیز کرتے ہیں۔ فساںوہ پتھر ہے جس پر چھری، چاقو تیزکیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خضر یاسین نے بھی اس خودی کے حوالے سے بتایا کہ اس خودی کو پہلے منفی انداز میں لیا جاتا تھا کہ شاید یہ انا وغیرہ کے معنی میں ہے۔ صوفیا بھی خود کو ختم کرنے کی بات کرتے تھے۔ اقبال نے آ کر اس خودی کے معنی ہی بدل کر رکھ دیے اور اسے ایسی مثبت قدر بنا دیا وہی اس کی پہچان بن گئی۔ میرا خیال ہے کہ یہ خود آگہی بھی ہے اور خداآگاہی بھی۔ یہ اپنے آپ کو پہچاننا اور پھر اس روشنی میں خدا کو پہچاننا ہے یہ کوئی غیر معمولی قوت ہے جو روح کی طرح امرربی ہے۔ جو مرد مومن کی اساس بنتی ہے۔ اقبال ہی نے کہا تھا: ہے نور تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تونرا صاحب ادراک نہیں ہے بات اصل میں حمید حسین نے یوں شروع کی تھی کہ ہم قرآن پر ایمان لاتے ہیں تو قرآن کا مطالبہ بھی ہمیں دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ انسان کی فطرت دو چیزوں کا مجموعہ کہ ایک فطرت بالفعل ہے اور دوسری فطرت بالقوۃ ۔ جو فطرت فعل ہے اس میں انسان حیوان ہی ہے کہ اس میں اور حیوان میں بہت سے قدریں ایک جیسی ہیں مثلاً بھوک پیاس اسے بھی لگتی ہے اور حیوانوں کو حتیٰ کہ جانور بھی انسانوں کی طرح اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ نسل بھی ان کی ایسے ہی آگے چلتی ہے جیسے انسانوں کی۔ فرق پڑتا ہے فطرت بالقوۃسے۔ یہی قوت انسان کو ممتاز کرتی ہے اور اشرف بناتی ہے۔ کھانا تو حیوان اور انسان دونوں کھاتے ہیں مگر حرام حلال کا فطرت بالقوہ بتاتی ہے۔ گویا بالقوہ divine force آلوہی قوتہے جو انسان کو خدا تک رسائی دیتی ہے۔ شیخ سعدیؒ نے فرمایا تھا: آدمی زادہ طرفہ معجون است از فرشتہ سرشتہ وز حیوان انسان دو چیزوں کا مرکب یا مجموعہ ہے۔ فرشتہ اور حیوان کا۔ دونوں اس میں کارفرما ہیں۔ یہ تو انسان کو دیکھنا ہے کہ کون سی شے غالب آ رہی ہے اور کون سی مغلوب ہو رہی ہے۔ پھر آتے ہیں خودی کی طرف کہ اقبال سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ خودی کیا ہے اور آپ نے یہ تصورکہاں سے لیا ہے۔ کیونکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نطشے وغیرہ سے آیا ہے۔ اقبال نے اس شخص سے کہا کہ کل آ جائے۔ وہ بہت خوش ہوا اور کاپی پنسل لے کر اقبال کے پاس حاضر ہوا۔ اقبال نے کہا قرآن پاک اٹھا کر لائو۔ کہنے لگے اس میں سے سورۃ حشر نکالو اور یہ آیت پڑھو: ولا تکونو کالذین نسوااللہ فانسھٰم انفسھم ترجمہ :۔اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ خود اپنے تئیں بھول گئے۔ گویا اللہ کو یاد رکھو تو اللہ کب بھولتا ہے۔ پھر کیا کچھ اپنا نہیں ہو جاتا۔ کہ سیرت رسولؐ نصیب ہوتی ہے اور پھر : کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کہ لوح و قلم تیرے ہیں ایک مرتبہ پھر بات وہیں سے شروع ہوئی کہ صغیر صاحب نے یہ نظم لاالہ الااللہ ردیف والی خوش الحانی سے سنائی۔ ہمارے پیارے جناب رشید احمد انگوی صاحب نے اس حوالے سے اتنی پرتاثیر بات کی کہ وہاں موجود دوست جھوم اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ لاالہ الا اللہ کی تفسیر ہے۔ کہنے لگے کہ جب اسمبلیوں میں ہم یہ نظم پڑھتے تو سب ایک آواز ہو کر لاالہ الا اللہ پڑھتے تو فضا مہک اٹھتی۔ ویسے اس نظم کے ایک ایک شعر کو بچوں اور نوجوانوں کو سمجھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کلیدی شعر یہ ہے کہ: یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الا اللہ اس میں کیا شک ہے کہ پھر کسی بت شکن کی ضرورت ہے۔ بت صرف مجسمے نہیں ہیں۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں قومیت کا بت‘ زبان کا بت‘ علاقے کا بت اور کتنی قسم کے بت ہم پوجتے ہیں: یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں لاالہ اللہ اب دیکھیے اقبال نے کس طرف ہماری غلط فہمیوں بلکہ خوش فہمیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ جسے ہم زندگی کے اسباب سمجھتے ہیں وہ سب سراب ثابت ہوتے ہیں۔ یہ سارے بت ہماری عقل اور خواہش نے تراشے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر قریشی صاحب اچھی بحث چھیڑی کہ سب ناشتہ بھول گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی محافل غنیمت ہیں کہ ایمان تازہ کرتی رہتی ہیں۔ بہرحال یوسف صاحب نے مٹن اور حلوے کا ناشتہ کروایا اور سب سے بڑی بات کتنے ہی دوست مل بیٹھے اور آخر میں اس درس کو آغاز کرنے والے منیر احمد چیمہ اور میاں حنیف کے لئے دعائے مغفرت کروائی گئی ایک شعر کے ساتھ اجازت: اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستنیوں میں مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ