پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر اور حاضر ایم این اے کی گرفتاری کے افواہ گزشتہ روز حقیقت بن گئی۔ آصف زرداری؛ فریال تالپور اور آغا سراج درانی کے بعد خورشید شاہ کی گرفتاری پیپلز پارٹی کی چوتھی بڑی وکٹ گرنے کے مترادف ہے۔ آصف زرداری کی وجہ شہرت اور وجہ طاقت بینظیر بھٹو سے ان کا ازدواجی رشتہ تھا ۔ بینظیر بھٹو جب تک زندہ تھیں تب تک فریال تالپور انتہائی لو پروفائل میں رہیں۔ بینظیر بھٹو کے بعد فریال تالپور کی سندھ میں حیثیت ڈی فیکٹو وزیر اعلی کی تھی۔ جب کہ سراج درانی بھی آصف زرداری کے قریبی دوست ہونے کی وجہ سے سیاسی طاقت کے مالک رہے مگر ان کی پارٹی میںوہ پوزیشن ہرگز نہ تھی جو خورشید شاہ کی تھی۔ خورشید شاہ بینظیر بھٹو کے قریب رہے۔ خورشید شاہ کا تعلق سکھر سے ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی طرح نہ بڑے جاگیردار تھے اور نہ سرمائے دار۔ انہوں نے سیاست طالب علمی کے دنوں سے اختیار کی۔ ان کاتعلق مڈل کلاس سے تھے۔ وہ مڈل کلاس کے مضبوط پرت سے بھی نہیں تھے۔ اس لیے جب انہوں نے تعلیم ختم کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز کیا تب انہیں واپڈا میں میٹر ریڈر کی معمولی ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے سیاست میں مقام پیدا کرنے کے لیے واپڈا کی ملازمت ترک کی مگر جب وہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں سندھ کے وزیر تعلیم بنے تب بھی ان کے نام سے ’’میٹر ریڈر‘‘ کا تعارف ایک طعنے کی طرح چپکا رہا۔ خورشید شاہ نے سیاست میں اپنا نام اور مقام پیدا کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ انہوں نے سخت حالات میں بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ خورشید شاہ ذاتی طور پر ملنسار اور ٹھنڈا مزاج رکھنے کے طور پر مشہور ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے مسلم لیگ ن کے ارکان سے قریبی تعلقات پیدا کیے۔ جس وقت پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں دوریاں دشمنی کی حد تک تھیں اس وقت بھی خورشید شاہ دونوں پارٹیوں کے درمیاں پل کا کردارا دا کرتے رہے۔ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کو بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی اختلافات رہے مگر یہ خورشید شاہ تھے جنہوں نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے حزب اختلاف کے کسی بھی بندے کے کام پر نہ کوئی اعتراض کیا اور نہ کبھی انکار کیا۔ جس طرح پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران رحمان ملک ایم کیو ایم کے فیورٹ تھے؛ اسی طرح خورشید شاہ مسلم لیگ ن کے پسندیدہ جیالے تھے۔خورشید شاہ کے لیے مشہور ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے حلقے کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کے کام کیے بلکہ کسی بھی سوالی کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجا۔ بینظیر بھٹو کے بعد جب پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری کے ہاتھوں میں آئی؛ اس وقت نہ صرف ناہید خان بلکہ مرحوم مخدوم امین فہیم بھی ناپسندیدہ قرار پائے مگر خورشید شاہ اپنی عملیت پسندی کی وجہ سے آصف زرداری کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان پر پارٹی کے حلقوں میں موقعہ پرستی کے الزامات بھی لگتے رہے مگر ان کو معلوم تھا کہ اقتداری سیاست میں جو شخص پاور کے قریب رہتا ہے وہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ خورشید شاہ سیاست میں سیڑھیاں چڑھنے میں بہت ہوشیار تھے۔ ان کی بہت بڑی خواہش تھی کہ وہ سندھ کے وزیر اعلی بنیں مگر آصف زرداری نے انہیں قومی اسمبلی کا مورچہ دیا اور وہ اس مورچے پر برسوں تک ڈٹے رہے۔خورشید شاہ کے بارے میں عام طور پر سندھ اور خاص طور سکھر کا ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے مگر اقتداری سیاست کی گنگا میں انہوں نے صرف ہاتھ نہیں ڈبوئے بلکہ وہ اس گنگا میں دل کھول کر نہائے۔ اس طرح وہ خورشید شاہ جن کے لیے کبھی مہران کار بھی بڑا مسئلہ تھی اس خورشید شاہ کی شناخت پراڈو بن گئی۔ انہوں نے اقتداری سیاست میں اتنی دولت حاصل کی کہ ان کاشمار نہ صرف سکھر بلکہ سندھ کے امیر لوگوں میں ہونے لگا۔خورشید شاہ کو اپنی ہوشیاری پر ہمیشہ ناز رہا۔ نیب کو روز اول سے معلوم تھا کہ خورشید شاہ کے پاس بے انتہا دولت ہے مگر خورشید شاہ نے آصف زرداری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سارے اثاثے اپنے بااعتماد ساتھیوں کے نام پر بنائے۔ جب خورشید شاہ کے خلاف نیب نے تحقیق شروع کی تب سندھ کے اس سید نے نیب کو چیلنج کیا تھا کہ اگر ان پر ناجائز دولت کا ایک پیسہ بھی ثابت ہوا تو وہ سیاست سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔نیب کو خورشید شاہ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ نیب کو معلوم تھا کہ خورشید شاہ نے نہ غیر قانونی اثاثوں کے ساتھ بہت بڑے تعلقات بھی بنائے ہیں۔ نیب نے خورشید شاہ پر بہت جال پھینکے مگر وہ ہر جال سے بچتے رہے۔ خورشید شاہ نے جتنا مال اکٹھا کیا ہے اس کی تفصیل بہت زیادہ ہے مگر نیب کو وہ سارا غیر قانونی مال خورشید شاہ پر ثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ خورشید شاہ نے بڑی کوشش کی وہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی تعلقات بنائیں۔ اس سلسلے میں وہ قومی اسمبلی میں بہت گرجے اور بہت کڑکے مگر ان کا سارا کمال دھرا رہ گیا۔ وہ نیب کے نشانے پر تھے۔ نیب نے انہیں گرفتار کرلیا۔ نیب کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی یہ شک تھا کہ خورشید شاہ کی گرفتاری پر ردعمل سامنے آئے گا مگر اس وقت پیپلز پارٹی کا ہر جیالا اپنی کھال بچانے کے چکر میں ہے۔ خورشید شاہ کی گرفتاری پر سندھ تو کیا سکھر بھی بند نہیں ہوا۔خورشید شاہ کے بارے میں پیپلز پارٹی کے حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ آصف زرداری کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی رہنمائی خورشید شاہ کرینگے مگر پیپلز پارٹی یہ وکٹ گرنے کے بعد سندھ میں بلاول کی رہنمائی کے حوالے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو نہ تو مراد شاہ بھر سکتے ہیں اور نہ جمیل سومرو جو عملی طور پر بلاول کے سیاسی سیکریٹری ہیں مگر بلاول نے انہیں لاڑکانہ کی خالی ہونے والی نشست پی ایس 11 پر پیپلز پارٹی کا امیدوار منتخب کیا ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی احتساب کے محاصرے میں ہے اور خورشید شاہ کے بعد سندھ میں ایسی دوسری شخصیت نہیں جو پیپلز پارٹی کو رہنمائی کے بحران سے نکال سکے۔ پیپلز پارٹی اس وقت امتحان سے گزررہی ہے ۔ اس امتحان میں پیپلز پارٹی کی صفوں میں انتشار کے ساتھ ساتھ اندورونی اختلافات عروج پر ہیں۔ جب تک آصف زرداری آزاد تھے تب تک وہ پیپلز پارٹی میں پیدا ہونے والے اختلافات کو دبانے میں مہارت رکھتے تھے مگر آصف زرداری کے بعد پیپلز پارٹی اس کشتی کی مانند ہے جس کا کوئی بھی مانجھی نہ ہو۔ حالیہ بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں پیدا ہونے والی طغیانی تو کسی حد تک ختم ہوچکی ہے مگر سیاست کی لہروں کی صورت میں سندھ کو ایک اور سیلاب کا سامنا ہے۔خورشید شاہ کا تعلق اس سکھر سے ہے جس کے درمیان دریائے سندھ بہتا ہے۔اس دریائے سندھ کے بندوں کو آبی حوالے سے تو کسی خطرے کا سامنا نہیں ہے مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاست میں ایک سیلاب پوری شدت سے پیدا ہو رہا ہے۔ خورشید شاہ کی گرفتاری پیپلز پارٹی کے ایک بچاؤ بند کے ٹوٹنے سے کم نہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی باقی بچی ہوئی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ اس سیلاب کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟ خورشید شاہ کی گرفتاری پیپلز پارٹی میں غصے کا سبب بن سکتی تھی مگر اب یہ گرفتاری اس خوف کا باعث بن گئی ہے جو پیپلز پارٹی کی تنظیمی ڈھانچے کو ہلانے کے لیے کافی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی اپنے عملی قائد آصف زرداری کی گرفتاری کے بعد خورشید شاہ کی گرفتاری کا دھچکا برداشت کر پائے گی؟ اس سوال پر سندھ کے سیاسی حلقے سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ سندھ کے سیاسی حلقے پیپلز پارٹی سے ہمدردی تو رکھتے ہیں مگر جب ان کی نظر سندھ کے زخموں پر لوٹ جاتی ہے اور کرپشن کی وجہ سے جب ان زخموں کو مرہم نہیں ملتی تب سندھ سوچنے لگتا ہے کہ زرداری کی قیادت والی پیپلز پارٹی سیاسی زہر ہے۔ مگر پھر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر اس زہر کا تریاق کیا ہے؟ خورشید شاہ کی گرفتاری نے اس سوال کو سندھ کے سنجیدہ ذہنوں کے لیے فکر کی دعوت دی ہے۔