دْھند اور کْہر میں لپٹی صبح بلکہ علی الصبح، بھوبتیاں چوک، رائیونڈ روڈپرواقع 92 ایچ ڈی ٹی وی کے لائیو پروگرام میں طلبی تھی، مقصود و مدعا حضرت الشیخ السیّد غلام محی الدین الگیلانی المعروف بابو جی صاحبؒ، کے سالانہ یوم کے موقع پر، ان کی خدمات ِ جلیلہ کو خراج تحسین پیش کرنا تھا، جو بقول شورش کاشمیری اپنے عہد کے سب سے بڑے شیخ طریقت تھے۔ شورش مرحوم کی گواہی ِ اس لیے ثبت کردی کہ موصوف بنیادی طور پر خانقاہ یا خانقاہیت سے تعلقِ خاطر کے قائل نہ تھے بلکہ مولانا فضل حق خیر آبادی سمیت اس پورے دبستان سے قدرے بْعد کے حامل اور احرار کے پَرداختہ تھے۔ احرار کے سرخیل سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ قدس سرہ کے دستِ مبارک پر باقاعدہ بیعت اور اپنی اوائل عمری اور نوجوانی ہی میں سحر بیانی اور طلاقت ِ لسانی کے حوالے سے، آپ سے فیض یاب ہوئے، ابتداًمَیں نے یہ روایت براہِ راست صاحبزادہ پیر سیّد نصیر الدین الگیلانیؒ سے سْنی اور پیر صاحب نے بلا واسطہ شورش کا شمیری سے، اور پھر اس کواپنے متعدد خطبات میں بھی بیان کیا۔ شورش نے اپنی کتاب تحریکِ ختمِ نبوّت کے صفحہ56 پر بھی اس امر کا اجمالاً یوں تذکرہ کیا: "سیّد عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے پہلی بیعت پیر صاحب قبلہ ہی کے دستِ مبارک پر کی اور اپنے لیے سحربیانی کی خواہش و استدعا کی۔ پیر صاحب قبلہ نے آپ کو ایک وِرد بتایا، جو آپ ہر تقریر سے پہلے زیر لب پڑھتے، پھر تقریر شروع کرتے اور مجمع ان کی مٹھی میں ہوتا"۔ جبکہ اس کی تفصیل پیر نصیر صاحب بحوالہ شورش یوں بیان کرتے ہیں کہ شاہ جی صاحب کی گولڑہ شریف میں ابتدائی حاضری چودہ سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ جو ان دنوں جواں سال و دلکش ورعنا اور بڑے شہ سوار تھے، بوقت سہ پہر گولڑے سے باہر "میرا " نامی ایک مقام پر خلوت گزینی کرتے اور رات گئے واپس لوٹتے۔ شاہ جی راولپنڈی سے پیدل گولڑہ شریف اس وقت پہنچے، جب حضرت پیر صاحب گھوڑے پر سوار ہو کر، اپنے روز مرہ کے معمول پر باہر روانہ ہورہے تھے، پیر صاحب نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور وہ سرپٹ ہوا، شاہ جی پیچھے ہوئے، پیر صاحب نے نوجوان کی اس بے تابی پر اپنی سواری روکی۔شاہ جی نے تعارف و مدعا بیان کر تے ہوئے بیعت دعا کی درخواست کی، حضرت پیر صاحب نے پوچھا " بتاؤ!کیا دعا کروں " شورش کا شمیری کہتے ہیں کہ شاہ جی نے مجھے بتایا کہ پیر صاحب کے اس استفسار پر میں قدرے ورطہ حیرت میں چلا گیا اور لمحوں اور ساعتوں میں، میں نے اپنی درخواست پیش کردی کہ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے "بیان" کی قوت دے، یعنی پورے ہندوستان میں میرے جیسا خطیب کوئی نہ ہو۔ حضرت پیر صاحب نے ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ کھینچی ہوئی تھی اور دوسرا ہاتھ اْٹھایا، دْعا کی، شاہ جی گولڑہ شریف سے پیدل، گولڑہ اسٹیشن کی طرف رخصت ہوئے، وہاں سے ٹرین کے ذریعے راولپنڈی پہنچے، آج کے لیاقت باغ میں کوئی اجتماع چل رہا تھا، شاہ جی کہتے کہ دْعا کی تاثیر ایسی جاری ہوئی کہ میرے وجود میں ایک طوفان برپا ہوگیا، جی چاہتا کہ کوئی مجمع سامنے ہو اور میں خطاب شروع کروں۔ بس وہیں سے خطابات کا سلسلہ چلا اور پھر تھمنے کو نہ آیا۔ شاہ جی کی اولین بیعت حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ صاحب سے تھی، ازاں بعد کسی مسئلے پر بْعد پیدا ہوا اور شاہ جی مولانا عبد القادر رائے پوری کے حلقہ بگوش ہوگئے،جو چشتی صابری سلسلے کے معتبر بزرگ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے متوسلین و متعلقین میں سے تھے۔ شورش کاشمیری اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سیّد پیر مہر علی شاہ قدس سرہ العزیز کے بعد آپ کے فرزند سیّد غلام محی الدین شاہؒ جانشین ہوئے، آپ نے تعلیم و تربیت کے علاوہ اپنے یگانہ عصر والد قدس سرہ کی نگاہ سے فیض حاصل کیا اور ایقان و عرفان کی صوفیانہ منزلیں طے کیں۔ آپ کو اعلیٰ حضرت نے بابوجی کہہ کر مخاطب کیا تو خانوادہ طریقت میں اسی لقب سے معروف ہوگئے۔ شورش کہتے ھیں مجھے آپ سے سولہ برس نیاز رہا۔ آپ نے 1959ء میں حرمین شریفین سے واپسی پر راقم کے غریب خانہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز کیا۔ اس دن سے آپ کے وصال ،جون1974ء تک احقر کو آپ سے قربت کا شرف حاصل رہا۔ ہر چیز قربت سے کشش کھودیتی ہے۔ لیکن آپ کا وجود فی الواقعہ معرفتِ حق کا خزینہ تھا۔ آپ سے قرب ارادت پید ا کرتا اور محسوس ہوتا کہ اللہ کی زمین پر معجزہ الہٰی ہیں۔ آپ بلاشبہ ایک ولی اللہ اور جود وسخا کے انسان تھے۔ آپ کے وجود میں وہ تمام اوصاف متجلی نظر آتے جو قرونِ اولیٰ میں صحبت یافتگان رسالت کی خصوصیت تھے۔ آپ علائق دنیا سے اس حد تک بے نیاز تھے کہ معلوم ہی نہ تھا، دنیا کیا ہے اور اس کے شب و روز کیا ہیں؟فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اور دارالحکومت راولپنڈی لے گئے تو آپ سے رابطہ کرنا چاہا۔ اپنا سیکرٹری بھیج کر آپ کو یاد کیا۔ راقم(شورش کاشمیری) بھی وہیں تھا۔ صدر ایوب کی طرف سے سیکرٹری نے اخلاص کا اظہار کیا اور پیغام دیا کہ صدر آپ سے ملنے کے متمنی ہیں اور مجھے اسی غرض سے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ قصرصدارت کو شرف بخشیئے۔ آپ نے بہ تضائے نعم الا میر علیٰ باب الفقیر وبئس الفقیر علی باب الامیر یعنی بہتر امیر وہ ہے جو فقیر کے درپر جائے اور بْرا فقیروہ ہے جو امیر کے درپہ حاضر ہو۔ فرمایا میرا معاملہ اپنے رب سے ہے۔ مجھے ملا قات سے معذور رکھیں، تو بہتر ہے۔ اربابِ اقتدار سے میل ملاپ اور اس طرز کی راہ ورسم نہ میرے مشائخ کا مشرب رہا ہے اور نہ میرا مسلک۔ صدر کے سیکرٹری چلے گئے۔ پھر ان سے لاہور ملے، اگلی ملاقات کراچی میں کی، لیکن بابو جی کا فقرو استغنا اس رفعت پر تھا کہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے۔ فرمایا کہ اقتدار اور فقراء اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اس چیز نے راقم کو اس قدر متاثر کیا کہ تاریخ اسلام کی وہ صداقتیں یاد آگئیں، جنہیں پڑھ کر حیر ت ہوتی کہ فی الواقعہ جلال و استبداد سے فقرو استغنا نے اس طرح خطاب کیا تھا، اب راقم دیکھ رہا تھا کہ بابو جی ان صداقتوں کی ترت پھرت تصویر ہیں۔ بابوجی سیاسی انسان بالکل ہی نہ تھے۔ ان کا وجود ایک دینی تحریک تھا۔ وہ نگاہ کرتے اور انسان اپنے اندر ایک انقلاب محسوس کرتا۔ وہ بات چیت کے انسان نہ تھے۔ ان کا ختم نبو ت کے مسئلہ سے موروثی تعلق تھا۔ اس غرض سے شخصاً کسی تحریک، تنظیم یا موتمرمیں شامل نہ ہوتے،لیکن سفروحضر میں دعا گو رہتے۔ 1953ء کی تحریک میں علماء و صلحاء کی یکجہتی کے لیے لاہور میں مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا، آپ پہلی دفعہ مدعوین کی زبردست خواہش پر تشریف لائے۔ آپ کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ سیّد عطاء اللہ بخاری نے آپ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا۔ جھْک گئے، کہنے گلے حضرت آپ آگئے،بحمد اللہ!ہماری نصرت قریب ہوگئی ہے۔ میرے سامنے اعلیٰ حضرت ؒ ہیں۔ ہم تو انہی کا مشن لے کر چل رہے ہیں۔ ، بابوجی نے دعا کی۔ بابو جی ہی کا فیضان تھا کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتیب فکر جو بعض فروعی جھمیلوں کے باعث کبھی اکٹھا نہ ہوتے تھے۔ اس تحریک میں اکٹھے ہو کر قادیانیت سے ٹکرا گئے۔ پھرجب جون1974ء سے تحریک کا فیصلہ کن دور شروع ہوا تو حضرت بابو جی نور اللہ مرقد مرض الموت کے نرغہ میں تھے، لیکن آپ کے معمول میں کوئی فرق نہ تھا۔ آپ کو دیکھ کرمعلوم ہوتاتھا کہ اللہ والے یہی ہوتے ہیں۔ راقم نے وصال سے چند دن پہلے نیاز حاصل کیا، تو فرمایا! "جدوجہد کئے جاؤ، نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے "۔پھر خاموش ہوگئے، چہر ہ مبارک دمک رہا تھا۔ فرمایا "--- اب مسئلہ طے ہو کے رہے گا، نصرت آچکی ہے۔ مَیں اعلیٰ حضرت کے پاس جا رہا ہوں۔ ان سے عرض کروں گا۔ آپ نے جس پودے کی آبیاری کی تھی، وہ پھل لے آیا ہے "۔