یقینا 31دسمبر 2016ء سے پورے ایک سال 17دن کے ہنگامہ خیز دنوں کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثا ر کے بعد 18جنور ی 2019ء کو جب محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا بھاری بھرکم بوجھ سنبھالیں گے۔تو محاورے کی زبان میں چیختے چلاتے مقدمات کے اولے ان کے انتظار میں ہونگے۔یوں بھی محترم چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں بھی بیشتر بینچوں میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ صرف شامل رہے بلکہ مشہور زمانہ پانامہ کیس جس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ساری زندگی کیلئے نا اہل ہوئے۔تو اُن سے منسوب اس جملے نے بڑی شہرت پائی جس میں انہوں نے ن لیگ کی قیادت کو Sicilian Mafiaسے تعبیر کیا تھا۔ہر قسم کے مافیا کے بارے میں میری معلومات بڑی غریب ہیں۔ گوگل سے رجوع کیا تو اس مافیا کی پوری تاریخ سامنے آگئی کہ جوانیسویں صدی سے اٹلی،جرمنی ،کینیڈا ،امریکہ اور یورپ میں سرگرم ہے۔ابھی دہائی قبل جب اٹلی میں اس مافیا کے چیف Bernardo Provinzaniکی گرفتاری عمل میں آئی تھی تو ساری دنیا میں اس مافیا کے جرائم شہ سرخیوں میں شائع ہوئے تھے۔بعد میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس بات کی تردید کی تھی کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر گاڈ فادر یا Sicilian Mafiaکی تہمت دھری ۔۔۔ البتہ ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کے توہین عدالت کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی یہ آبزرویشن ضرور آئی تھی جو سینیٹر نہال ہاشمی کی دھمکی کہ:"We will not let them live in this land" اس کے جواب میں تھی۔مناسب خیال کرتا ہوں کہ اسے بہ زبان انگریزی ہی درج کردوں۔۔۔ "The Sicilian Mafia used to murder judges' children" یہ لیجئے ابھی ہمارے محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اعلیٰ منصب سنبھالا نہیں کہ میں ماضی کی تلخیوں کی پٹاری کھول بیٹھا ۔مگر یہ حقیقت ہے کہ سال گزشتہ جس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کی کرسی پر چیف جسٹس ثاقب نثار بیٹھے تھے اور جن کے نائبین میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ سر فہرست تھے ۔پاکستان کی سیاسی و عدلیہ کی تاریخ میں ہنگامہ خیز ترین دور کہلائے گا خاص طور پر دسمبر2013ء میں محترم جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رخصتی کے بعد کہ ہمارے محترم جنرل (ر)پرویز مشرف کی اقتدار کی رخصتی کا باعث بنے اور جن کی عدالتی ہیبت اور دہشت ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار سے چار قدم آگے ہی تھی ۔ ۔ ۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ برسوں میں اس وقت محترم جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری ،عدلیہ کی تاریخ کے متنازعہ ترین جج کہلاتے ہیں۔جواد ایس خواجہ کی مدت ملازمت نے تو ایک ریکارڈ قائم کردیا یعنی صرف 21دن ۔ اُن کے بعد آنے والے جسٹس انور ظہیر جمالی کوئی 16ماہ چیف جسٹس رہے۔ ۔جن کے بعد31دسمبر 2016ء کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک کی اعلیٰ عدالت کا منصب کیا سنبھالا۔۔بقول شخصے گویا دبستاں کھُل گیا ہمارے ن لیگ کے قائد ،وزیر اعظم میاں نواز شریف جون 2013ء سے بڑے کّر و فر سے حکومت کر رہے تھے ۔برسہا برس سے اُن کے ذاتی ممنون و مشکور صدر مملکت کے عہدے پر فائز ممنون حسین ،دھیمے مزاج کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس کی سربراہی پر بھی نسبتاً low profileسربراہ ۔۔۔یوںاسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے محترم میاں نواز شریف کے لئے یہ تیسرا دور ’’چین ہی چین ‘‘ لکھ رہا تھا۔البتہ سیاسی محاذ پر مئی 2013کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی صورت میں جو ’’دھرنے‘‘ کا جن باہر نکلا ،اُس نے ضرور میاں صاحب کی حکومت کو سال بھر سے اوپر دہلائے رکھا۔میاں نواز شریف کی خوش قسمتی تھی کہ اُس کی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ،خان صاحب کی تحریک میں اپنا وزن ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوئی۔پھر ’’امپائر‘‘ جس کی وضاحت نہیں کروں گا۔۔۔سابق جنرل پرویز مشرف کی ہزیمت آمیز رخصتی کے بعد بحیثیت ایک ادارہ یہ طے کر چکے تھے کہ وہ سیاست کی کیچڑ سے خود کو دور رکھیں گے۔یوں تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والے میاں نواز شریف اپنے اقتدار کا تین چوتھائی سفر طے کرچکے تھے تو کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پانامہ کا آتش فشاں اس زور سے پھٹے گا جو اُن کی حکومت کو ہی رخصت نہیں کردے گا بلکہ سارے شریف خاندان اوراُن کے آجو باجو کے بیشتر سویلین،ملٹری بیوروکریٹ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوں گی۔پانامہ کیس کھلا تو اپریل 2016ء میں جب شریف خاندان کا اقتدار پر شباب آیا ہوا تھا۔مگر پانامہ کیس تویوں کھلا کہ معذرت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کراچی کے منفرد شاعر رسا چغتائی کے اس شعر کا سہارا لوں گا۔۔۔ صرف مانع تھی حیابند ِ قبا کھلنے تک پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا 20اپریل 2017ء کو پانامہ لیکس کا جو ابتدائی فیصلہ آیا اس میںاعلیٰ عدالت نے ساری ذمہ داری قبول نہیں کی اور ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔بہر حال یہ جے آئی ٹی اس اعتبار سے منفرد تھی کہ اس پانچ رکنی ٹیم میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل تھے۔جے آئی ٹی نے جولائی 2017ء میں جو رپورٹ دی اس کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نہ صرف انہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو ساری زندگی کے لئے سیاست سے نا اہل قرار دیدیا بلکہ لمبی مدت کی سزائیں دے کر اڈیالہ جیل بھی بھیج دیا۔یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ محترم میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کو یہ ساری سزائیں خود اُن کی حکومت کے دور میں دی گئیں اور اُن کے بعد ہمارے دوست محترم شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھی بیٹھے۔یہ بات شریفوں اور زرداریوں کے حامیوں کو یاددہانی کے لئے تھی کہ جو تحریک انصاف کے حکومت کے دور میں جو عدالتی فیصلے آرہے ہیں،اُس کا سارا ملبہ وزیر اعظم عمران خان پر ڈال رہے ہیں۔شاعر عوام حبیب جالبؔ نے لکھا تھا۔۔۔ ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا سو 18جنوری 2019ء کو ہمارے محترم آصف سعید کھوسہ جب اعلیٰ عدالت کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھیں گے تو انہیں ورثے میں وہ سارے مقدمات ملیں گے جو چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکے۔جس میں سرفہرست تو زرداری خاندان پہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے الزام ہیں۔ جن میں بڑے ملزموں میں انور مجید خاندان کو ہتھکڑیاں لگ چکی ہیں ۔ 172افراد ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں آچکے ہیں اور خود سیاست ،صحافت، عدالت کے سرخیلوں کا کہنا ہے کہ ’’زرداری صاحب کا جیل جانا ٹھہر گیا ہے… صبح گیا یا شام گیا۔ (جاری ہے)