اھلاً و سہلاً ،مرحبا…یقینا ایک ایسے وقت میں جبکہ وطن عزیز پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اقتصادی بحران سے گذر رہا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی وطن عزیز آمد جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب سعودی ریاست کے حاکم ِ کُل کی حیثیت سے وہ تمام اندرون،بیرون سنبھالے ہوئے ہیں۔ہر اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔سعودی ولی عہد او ر اُن کی حکومت ،پاکستان کے دورے کو کتنی اہمیت دے رہی ہے،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی آمد سے چار دن قبل ہی ایک پورے لاؤلشکر نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں۔ ۔ ۔ جدہ میں اب مستقل مقیم سابق آرمی چیف اور مسلم کمانڈنگ فورس کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی پروٹوکول سمیت تمام حساس امور کو دیکھنے کے لئے اسلام آباد آچکے ہیں۔حکومت کے میڈیا اور اقتصادی منیجر کی آمد کے موقع پر 12ارب ڈالر کی مالی امداد توقع کر رہے ہیںمگر ایک حلقہ اس سے بھی زیادہ کی توقع کر رہا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے ہمیشہ ہی سے تعلقات بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ایک برادر مسلم ملک کی حیثیت سے تو دہائیوں سے سعودی عرب سے ہمارے خصوصی نوعیت کے تعلق رہے ہیں۔ سعودی سر زمین نے نہ صرف لاکھوں پاکستانیوں کو پرکشش ملازمتیں دی ہوئی ہیں ۔ ۔ ۔ بلکہ غیر ملکی ترسیلات کی وصولی میں سعودی عرب سر فہرست ہے۔پاکستان ،سعودی تعلقات کی ایک بڑی طول طویل تاریخ ہے۔اور دعویٰ سے کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جس سے تعلقات میں کبھی ’’سرد مہری‘‘ نہیں آئی۔ورنہ اسلامی ممالک کی تعداد کوئی 56کے قریب ہے۔ایک ،دو کو چھوڑ کر بیشتر مسلم ممالک سے ہمارے تعلقات بس رسمی نوعیت کے ہیں۔ بلکہ بعض مرحلوں پر تو چند اسلامی ممالک نے بین الاقوامی فورموں میں ہمارے بد ترین پڑوسی دشمن ملک بھارت کے پلڑے میں وزن ڈالنے میں بھی شرم محسوس نہیںکی۔پاکستان،سعودی عرب تعلقات کی تاریخ میں بہت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگر بھٹو صاحب کے دور ِ حکومت میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل نے اسلامی سربراہ کانفرنس میں جو کلیدی کردار ادا کیا تھا اُس سے وطن عزیز کو ایک نئی زندگی ملی تھی کہ سقوط ِڈھاکہ کے بعد پاکستانی ریاست زخموں سے چُور چُور تھی۔یوں تو پاکستان دوستی میں قیام ِ پاکستان کے بعد سے ہر سعودی حکمران سے ہمارے تعلقات برابری کی سطح پر رہے۔مگر شاہ فیصل کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے خصوصی رغبت تھی۔1964ء سے1975ئتک سعودی عرب پر بادشاہت کرنے والے ’’کِنگ فیصل‘‘ نے بھٹو صاحب سے خصوصی تعلقات کے سبب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے حوالے سے بھر پور مالی امداد دی تھی۔جو لیبیا کے سربراہ مملکت کرنل قذافی سے کم نہ تھی۔روایتی طور پر سعودی عرب کی داخلہ اور خارجہ پالیسی اور خود اُس کا اندرون شاہی سسٹم آزاد دنیا کے سامنے سات پردوں میں چھپا رہا ہے۔یقینا 1953ء سے1964ء تک سعودی عرب کے رائل فیملی کے سربراہ کنگ خالد بن سعید کو اس بات کا کریڈٹ جائے گا کہ انہوں نے ایک جدید ،ترقی یافتہ مسلم ریاست ڈھالنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔خاص طور پر سعودی عرب کی صحرائی سرزمین پر جو کھربوں ڈالر کا تیل سعودی عرب سمیت ساری دنیا سے پوشیدہ تھا ،اُسے دریافت کرنے کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ اُسے ایک معاشی قوت میں ڈھالنا کنگ خالد کا ہی کارنامہ تھا۔کنگ خالد بن سعید کے بعد گزشتہ 34سال میں سات بادشاہوں نے سعودی عرب پر حکومت کی ۔موجودہ سعودی فرماںروا کنگ سلمان عمر کے اب اس پہر میں ہیں کہ انہیں اب سارا انحصار ولی عہد محمد بن سلمان پر کرنا پڑرہا ہے۔صحافتی اعتبار سے یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے ولی عہد محمد بن سلمان کو2017ء کے اواخر میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔میری یادداشت کے مطابق امریکہ کے وہائٹ ہاؤس کی غیر متوقع طور پر عنان سنبھالنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا ۔ گو اس سَمٹ میں ایران اور بحرین کے علاوہ کم وبیش 26ممالک کے سربراہان نے اس میں شرکت کی تھی اور اسے ’’اسلامی سمٹ ‘‘ کا ہی نام دیا جارہا تھا۔جس میں خصوصی طور پر امریکی صدر مدعو تھے۔مگر جدہ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی ہمیں سارے شہر کے چوکوں ،چوراہوں اور کھمبوں پر ’’ٹرمپ اور کنگ سلمان‘‘ کی تصویریں ہی نظر آئیں۔ ۔ ۔ جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ یہ در اصل امریکی سعودی سمٹ ہے ، اور اس میں دیگرمسلم ممالک کی شرکت بحیثیت مبصرین کے ہے۔یہ وہ وقت تھا جب ایران ،سعودی تعلقات میں انتہائی کشیدگی آئی ہوئی تھی۔امریکی صدر نے تو روایتی انداز میں ایران پر حملے کئے ہی مگر ولی عہد محمد سلمان کا خطاب غیر معمولی طور پر ،پُر جوش اور جارحانہ تھا جس میں ایرانی حکومت کو وارننگ دی گئی کہ وہ سعودی مخالف حوثیوں کی پشت پناہی نہ کرے۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ امریکی سعودی سمٹ ہی تھی جس سے ولی عہد محمد سلمان کے ہاتھ میں ریاستی اختیارات پر مکمل کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے سے پہلے شاہی خاندان ریاست کے معاملات ،مشاورت اور اتفاق رائے سے چلاتا تھا۔مگر ولی عہد محمد بن سلمان نے ’’مشاورتی عمل ‘‘ کی روایت میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے سارے اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کردئیے۔ولی عہد کا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے شاہی نظام میں جو کرپشن جڑ پکڑ چکی تھی ،اُس پر ضرب ِ کاری لگائی اور سینکڑوں شہزادگان کو نہ صرف نظر بند کردیا بلکہ اُن سے اربوں ریال وصول بھی کئے۔ساتھ ہی سعودی عرب میں روشن خیالی کو فروغ دینے کے سلسلے میں بنیادی اقدامات کئے ،جن میں عورتوں کو گاڑیاں،سائیکلیں چلانے کی اجازت بھی دی گئی۔محمد بن سلمان کی صورت میں مغرب کو ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو ایک قدامت پرست ریاست کو جدید یت کی جانب لے جانے کے لئے پر عزم تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو جیسے ولی عہد محمد سلمان کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔سال 2018ء ولی عہد محمد بن سلمان کی فتوحات کا سال تھا۔اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ بادشاہت کی مسند پر کنگ سلمان بیٹھے ہیں۔مگر سارے داخلی ،خارجی ،شاہی امور ،نوجوانوں محمد سلمان کے ہاتھ میںہیں۔یقینا سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے ساری دنیا میں ولی عہد محمد بن سلمان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایااور اس حوالے سے اب بھی امریکہ سمیت مغرب کا اُن پر بڑا دباؤ ہے۔مگر یہ دباؤ کوئی اتنا بڑاخطرہ نہیں جو انہیں مستقبل کا بادشاہ بننے میں کوئی رکاوٹ بن سکے ۔اس سارے پس منظر میں ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد ،تحریک انصاف کی حکو مت کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دینے ،بلکہ اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں مفید و معاون ہوسکتی ہے۔ 12ارب ڈالر یا ایک اور میڈیا منیجر کے دعوے کے مطابق 20ارب کی امداد یقینا دم توڑتی پاکستانی معیشت میں وہ bloodجس سے اسے ایک نئی زندگی ملے گی کہ اس وقت خان صاحب کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ہی معیشت کی بحالی اور جس پر اُن کی حکومت کے مستقبل کا انحصار بھی ہے۔