محترم چیف جسٹس گلزار احمدکو خوش آمدید کہتے ہوئے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اُن کی بینچ کے سامنے پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ کا سب سے ہنگامہ خیز کیس آنے والے دنوں میں انکے لئے سب سے بڑا چیلنج بنے گا۔میرا اشارہ موجودہ آرمی چیف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی طرف ہے۔ ایک تکنیکی بلکہ حکومت کے وزیر قانون کی نا اہلی کے سبب جس طرح یہ مسئلہ الجھا یا گیا ہے،اس نے ایک طویل عرصے بعد نہ صرف اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے بلکہ خود پاکستان کا سب سے مقتدر ادارہ اور اس کا سربراہ متنازعہ بنادیا گیا ہے۔ جنرل باجوہ کی تین سالہ مدت ملازمت کی توسیع کے بارے میں جس گمنام وکیل نے لاہور ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا ہے، اس کا نام ، ذہن پر زور ڈالنے کے بعد بھی نہیں آرہا۔لیکن اس حقیقت سے کس طرح انکارہوسکتا ہے کہ آرمی چیف جیسے طاقتور ترین شخصیت کے خلاف کیس کرنے والا یا کرنے والے مضبوط ہاتھ نہ ہوں۔ ہمارے محترم سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ سے صرف چار ہفتے پہلے اس کیس کا آناخود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود چیف جسٹس کھوسہ کے کہنے کے مطابق پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت کوچیلنج نہیں کیا اور فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق ،جنرل یحییٰ خان ،جنرل پرویز مشرف ،جنرل پرویز کیانی ماضی میں خود ہی اپنی مدت ملازمت میں توسیع لیتے رہے اور اسے کسی فورم پر ا ٹھایا بھی نہیں گیا۔تو آخر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کو چیلنج کیوں کیا جارہا ہے؟ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بڑے معصومانہ انداز میںیہ فرما نا تھا کہ کیونکہ اس سے پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت پر سوال نہیں اٹھایا گیا، تو اعلیٰ عدالتوں نے بھی اسے نہیں چھیڑا۔اور اب اگر یہ کیس ہمارے سامنے آیا ہے تو ہم اسے انجام تک بھی پہنچائیں گے۔ بصداحترام چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی علمیت،قابلیت اور قانون کے حوالے سے ان کی دسترس کا پہلے بھی اعتراف کرچکا ہوں ۔لیکن ان کا یہ فرمانا کہ اس سے پہلے کے سابقہ کسی چیف جسٹس کا آرمی چیف کی مدت ملازمت کا نوٹس نہ لینا بہ زبان انگریزی ignoranceیعنی تجاہل عارفانہ میں لیا جائے ،بذات خود ایک حیرت کی بات ہے۔ یعنی ایک فوجی جنرل جو آئین کے تحت سکریٹری دفاع کی ماتحتی میں آتا ہے۔ ۔ ۔ مارشل لاء جیسا سنگین قدم اٹھا کر خود ہی صدرِ مملکت اور چیف جسٹس بن جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہی نہیں ،بلکہ برسوں کسی آئین اور قانون کو اس لئے بننے سے روکتا ہے کہ اُس سے کوئی پارلیمنٹ وجود میں نہ آئے۔اور اس کا کوئی ایسا نمائندہ وزیر اعظم سامنے نہ آئے جو اس کے اختیارات کو چیلنج کرے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس سمیت دیگر جج صاحبان جنہوں نے بھلے 1935ء کے ایکٹ سے جنم لینے والی آئین ساز اسمبلی سے یہ حلف اٹھا یا تھا، کیا اتنے بے خبر اور لاعلم تھے کہ انہوں نے آئین سے بالاتر مارشل لاء جیسے بدترین سیاہ قانون کو تسلیم کرلیا۔ ۔ ۔ ؟ معذرت کے ساتھ ، دراصل اُ ن کے یہ مفادات اور خوف تھا کہ جس کے سبب انہوں نے جنرل ایوب خان کے ان تمام غیر آئینی اقدامات کو صاد کرتے رہے۔ ۔ ۔ جبکہ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس وقت تک حسین شہید سہروردی جیسے پائے کے سیاستداں ایوبی آمریت کو چیلنج کر چکے تھے۔ اور تو اور،لاہور کے سنت نگر کے دو کمروں میں رہنے والا ایک درمیانہ طبقے کا شاعر یہ نعرہ ٔ مستانہ بھی بلند کرچکا تھا: ایسے دستور کو صبح ِ بے نور کو میں نہیں ماتنا ،میں نہیں جانتا 1964ء میں جو بی ڈی سسٹم کے تحت جو انتخابات ہوئے ۔ ۔ ۔ جس میں بانی ِ پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے شکست دی گئی،اور یہ سب کچھ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے سامنے ہوتا رہا۔ ۔ ۔ جنرل یحییٰ خان کو اقتدار کی منتقلی کے وقت بھی اور سقوط ڈھاکہ کے وقت شدید غداری کا مرتکب ہونے کے بعد بھی اُس وقت کے چیف جسٹس اور برادر ججوں کا ضمیرنہ جاگا؟ جنرل ضیاء الحق کے 5جولائی 1977ء کے مارشل لاء اور 4اپریل کو بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے جیسے انتہائی سفاکانہ اقدام پر چیف جسٹس انوار الحق کی مذمت میں نہ تو باروں میں سے کوئی اٹھا اور نہ بینچوں میں ۔ ۔ ۔ یہی نہیں، اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اپنے دستخطوں سے ایک منتخب وزیر اعظم کا جوڈیشل مرڈر کرتا ہے۔ ۔ ۔۔ اُسے انٹرنیشنل جوڈیشل کی چیئرمینی کے لئے نامزد کرکے بھیجا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اس پر بھی کسی فرد کی کوئی پٹیشن ،کوئی رِٹ سامنے نہیں آتی۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی باروں اور بینچو ں کا ضمیر اس وقت جاگا، جب وہ اپنے اقتدار کے آٹھ سال مکمل کرچکے تھے۔ ۔ ۔ اور بزعم خود فوجی ڈکٹیٹر کے بجائے عوام کا نجات دہندہ ہونے کا سودا ان کے سرمیں سما چکاتھا۔ اور پھر اس کے بعد جنرل پرویز کیانی نے اپنی مدت ملازمت میں جو تین سالہ توسیع کی۔ ۔ ۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک شدید معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔ ۔ ۔ ہماری سرحدوں سے لگے تمام ہی ممالک سے تعلقات میں کشیدگی کی کیفیت ہے۔محض جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملاز مت کے مسئلے پر ہی 70سال بعد ہماری بینچوں اور باروں کا ضمیر کیوں جاگا؟ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ اور تو اور، فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف سے این آر او لے کر اقتدار میں آنے والی زرداری کی پارٹی کا جوش وخروش بھی دیدنی ہے۔ ایک بار پھر یاددہانی کے لئے دہرانا چاہتا ہوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر اس بات کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے ۔لیکن ہاں ، علامتی طور پر ہی سہی جنرل ایوب خان، جنرل یحٰیی خان،جنرل ضیاء الحق اور ان تمام جنرلوں اور ان کے مارشل لا ء کی توثیق کرنے والے ججز کے کیسز کو بھی اس کیس کے ساتھ منسلک کیا جائے ۔ محض جنرل باجوہ کے کیس کو سننا درست نہ ہو۔ملک جس سنگین صورتحال سے گذر رہا ہے، اس میں آرمی چیف کیساتھ پوری قوم کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ انکا کیس سنا جائے۔ ٭٭٭٭٭٭