خوشاب کے صوبائی حلقہ پی پی چوراسی کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن نے کامیابی سمیٹی ہے۔اس کامیابی کو میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کی قیادت میں ترقی کا ووٹ قراردیا ہے۔اس اَمر سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کہ اس حلقے میں پی ایم ایل این بطور پارٹی اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے۔مگر محض پارٹی ووٹ بینک سے اس حلقے سے الیکشن نہ ماضی میں جیتاجاتارہا ،نہ ہی اب ایسا ممکن ہواہے۔یہ حلقہ پنجاب کے دیگر دیہی حلقوں جیسی ساخت رکھتا ہے ،یہاں کا سیاسی کلچر تین طرح کے ووٹ(شخصی،برادری و دھڑا بندی اور پارٹی)سے ترتیب پاتا ہے۔ملک وارث کلونے دوہزاردو کے انتخابات سے دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات تک ،اس صوبائی حلقہ سے مسلسل کامیابی سمیٹی تھی۔دوہزار دو اور دوہزار آٹھ کا الیکشن وارث کلو نے آزاد حیثیت سے لڑ کر جیتا ،بعدازاں یہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے۔یوں دوبار اِن کی کامیابی آزاد اُمیدوار کے طورپر ہوئی۔اس حلقہ سے کافی تعداد میں آزاد اُمیدوار ہمیشہ میدان میں اُترتے رہے ہیں ۔ملک وارث کلو کی وفات کے بعد اِن کے بیٹے معظم کلو نے پانچ مئی کو ہونے والا ضمنی معرکہ ،مارا۔اس طرح یہ کامیابی مسلسل پانچویں بار ہوئی ۔ یہ حلقہ خاصا پسماندہ ہے اور سارے کا سارا دیہاتی علاقوں پر مبنی ہے۔یہاں کے لوگوں کی روزی روٹی،چھوٹی موٹی ملازمتوں اور کھیتی باڑی و مویشی پالنے سے جڑی ہوئی ہے۔حلقہ سے نہر تو گزرتی ہے ،مگر یہ تھوڑے علاقے کو سیراب کرتی ہے ،زیادہ تر کھیتی کا انحصار بارش پر رہتا ہے،چنا کی فصل کاشت ہوتی ہے ،گندم کی فصل محدود پیمانے پر ٹیوب ویل جہاں میسر ہو ،اُگتی ہے۔محمد وارث کلو کے کریڈٹ پر ترقیاتی کام ہیں ،جس میں ڈگری کالجز اور سڑکوں کی تعمیر وغیرہ،ٹی ایچ کیو ہسپتال بہ ظاہر ماڈل ہسپتال ہے ،مگر زیادہ طبی سہولیات سے محروم ہے۔گذشتہ عرصہ میں تقریباً دو سال اس میں لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی۔ملک وارث کلو کی فیملی زیادہ تر لاہور میں رہتی ہے ،حلقہ میں خوشی غمی کے موقع پر یہ لوگ آتے رہتے ہیں ،یا پھر الیکشن لڑنے کے دِنوں میں،حلقے میں ڈیرے لگاتے ہیں۔ اس حلقے میں بلوچ ،ٹوانہ بڑی برادریاں ہیں،علاوہ ازیں ،جٹ،ارائیں ،گجر اور راجپوت،اعوان،آہیر برادریاں بھی ہیں۔یہاں مسلکی ووٹ بینک زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دوہزار اَٹھارہ اور اب کالعدم ٹی ایل پی کے اُمیدوار نے کافی ووٹ لیے ہیں۔ دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات میں یہاں ملک وارث کلو،ن لیگ اور شجاع محمد خان ،پی ٹی آئی کے مابین زور دور مقابلہ ہوا تھا۔ملک وارث کلو کو لگ بھگ چھ ہزار ووٹوں کی برتری میسر آئی تھی۔اب ضمنی الیکشن میں ان دونوں خاندانوں کی اگلی نسل میدان میں تھی۔ملک وارث کلو کے بیٹے معظم کلو اور شجاع محمد خان کے بھتیجے علی حسین بلوچ کے مابین اس معرکے میں معظم کلو کو لگ بھگ دس ہزار ووٹوں کی برتری ملی ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ایم ایل این کا ووٹ بینک دوہزار اَٹھارہ کی نسبت بڑھا ہے۔ا س پہلو کی کئی ایک وجوہات ہیں۔مثال کے طورپر معظم کلو اور اِن کے بھائی عبدالرحمن نے انتخابی مہم بہترین انداز سے ترتیب دی تھی ،یہ دونوں بھائی ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے پائے گئے۔پی ایم ایل این کی مرکزی لیڈر شپ نے حلقے میں فوکس کیے رکھا،معظم کلو کو ہمدری کا فیکٹر بھی حاصل رہا۔ملک وارث کلو کی شخصیت ،کا تاثر بھی موجود تھا،یہ ایک شریف انسان تھے اور حلقے میں بساط بھر ترقیاتی کام بھی کرواتے رہتے تھے۔ایک اہم فیکٹر کالعدم ٹی ایل پی کا بھی تھا،جس نے دوہزار اَٹھارہ کی نسبت اس بار پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو توڑا۔جس کی وجہ حالیہ عرصہ کے واقعات قراردیے جاسکتے ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات بھی کئی ایک ہیں ،ٹکٹ دیتے ہوئے ،پارٹی کے اندر پھوٹ پڑی ،ایم این اے احسان اللہ ٹوانہ نے اپنی مرضی سے علی حسین بلوچ کو ٹکٹ دلوایا ،جب کہ گل اصغر بگھورٹکٹ کے اُمیدوارتھے ، لیکن آخری لمحوں میں احسان اللہ ٹوانہ نے ان کو ٹکٹ نہ ملنے دیا ،واضح رہے کہ دوہزار اَٹھارہ کے الیکشن میں بھی این اے چورانوے سے گل اصغر ہی ٹکٹ کے اُمیدوار تھے ،لیکن پارٹی نے عین الیکشن کے دِنوں میں احسان اللہ ٹوانہ کو این اے کا ٹکٹ دے دیا۔گل اصغر بگھور اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں ،آدی کوٹ ،رنگ پوربگھور کے علاوہ کچھ چکوک میں اِن کی براداری کا ووٹ بینک موجود ہے۔اس ضمنی الیکشن میں گل اصغر بگھور نے معظم کلو کی حمایت کی ،یہ پی ٹی آئی کے لیے خاصی ندامت ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے پی ٹی آئی کو خوشاب میں متعارف کروایا ہو ،وہ اب پی ایم ایل این کے اُمیدوار کو سپورٹ کرتا پایاگیا ہو۔پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ کالعدم ٹی ایل پی نے اس بار پی ٹی آئی کے ووٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔یہ مسئلہ اگلے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے لیے موجود رہ سکتا ہے۔یہاں کی دونوں بڑی برادریاں ،ٹوانہ اور بلوچ مل کر بھی یہ الیکشن نہ جیت سکیں۔دونوں برادریوں کے سرکردہ شخصیات کو اس پہلو کا جائزہ لینا چاہیے اور ٹوانہ فیملی کو حلقے میں ترقیاتی کام کروانے میں توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس حلقے میں پی ایم ایل این کو اپنی جیت کی روایت برقرار رکھنے کے لیے حلقہ کے عوام کی خدمت کرنا ہوگی،شہباز شریف اور مریم نواز کا ٹویٹ ،حلقہ کے عوام کا شکریہ اداکرنے کے لیے کافی نہیں ۔ا س حلقہ میں طبی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی،حلقہ کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پید اکرنا ہوں گے اور اُمیدوار کو حلقہ میں زیادہ سے زیادہ موجودگی کا احساس دلانا ہوگا۔جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو اگلے الیکشن میں پنجاب سے اُترنے کے لیے ،اس کو وسیع اور منظم حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔