رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور اس کی رحمتیں اپنے اختتام کی جانب گامزن ہیں تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ ایام مقدس میں ہمارے اندر جو انفرادی اور اجتماعی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ رمضان کے بعد آنے والے مہینوں میں ہمارے انفرادی کردار کا مستقل حصہ بن پائیں گی اور معاشرے کی اقدار میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہو پائے گی۔ تاہم اس مہینے میں پاکستانی زیادہ سخاوت کی طرف مائل ہوتے ہیں اس طرح یہ سخاوت بلواسطہ طور پر پاکستانیوں کی خوشی کے عالمی انڈیکس میں اضافہ میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ در حقیقت سخاوت ہی ایک ایسا کلیدی عنصر ہے جس کو اقوام متحدہ کے sustainable develop ment solution net work کی رپورٹ میں خوشی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ عالمی خوشی کے انڈیکس میں پاکستان کا شمار ان 20ممالک میں ہوتا ہے جس کے لوگوں میں اس برس خوشیوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانیوں کا نمبر اقوام متحدہ کی فہرست میں 75ویں نمبر سے 8درجے ترقی کر کے 67ویں نمبر پر آ گیا ہے جو ایک لحاظ سے پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ مگر یہ انڈیکس کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کو جانچنے کا پیمانہ ہے نہ ہی اس سے اس ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کو ماپا جا سکتا ہے۔ آپ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ پاکستان کے تناظر میں سخاوت پاکستانیوں کے جذبہ ہمدردی کو جاننے کا پیمانہ تو ہو سکتی ہے مگر دوسرے شخص کے حالات کو جاننے کا آلہ ہرگزنہیں ہو سکتی۔ ہمدردی آپ کو اطمینان قلب کا ساماں میسرکرتی ہے یا پھر احساس گناہ کو زائل کرتی ہے جبکہ ایمپتھی یا احساس ہمدردی ایک معاشرتی قدر ہے جو معاشرے میں رواداری مساوات کا جذبہ اجاگر کرتی ہے اور ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شامل ہونے کے جذبہ کو ابھارتی ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں احساس ہمدردی کو مانپنے کا ایک عالمی پیمانہ کسی بھی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حالات بھی ہوتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان کی اس حوالے سے ریکنگ کوئی خاص تسلی بخش نہیں یہاں تک کہ اس حوالے سے چین اور بھارت بھی پاکستان سے بہتر ہیں۔خوشی کا انڈیکس عام طور پر کسی بھی معاشرے کے افراد کے انفرادی رویوں بشمول سیاسی رجحان کے مطالبے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے خوشی کے انڈیکس کی ویب سائٹس پر یہ وضاحت موجود ہے کہ خوشی کے لیول کا عوام کے ووٹنگ کے رویوں سے کس طرح تعلق ہوتا ہے۔اس کے مطالبہ سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ جس قدر خوش ہوں گے اسی قدر زیادہ حکومتی پارٹی کی حمایت کریں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر لوگ ناخوش ہوں تو پھر وہ مقبول جماعتوں اور جن جماعتوں میں آمریت ہو کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کیا اس تجزیہ سے ہمیں پاکستان کے 2018ء کے انتخابات کے نتائج کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے؟ کیا ملک میں مایوس اور بے زار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟ خوشی کے انڈیکس کے طریقہ کار کے بے شمار مسائل ہوتے ہیں جو دقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے ہیں جن میں سے ایک لوگوں کی نفسیات کو جانے بغیر ان کے رویوں کا تجزیہ کرنا اور خوشی اور سچائی کے درمیان تعلق تلاش کرنے کی کوشش شامل ہے۔ تاہم خوشی اور سچائی کے تعلق کی وضاحت خود خوشی کی وضاحت سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ جھوٹ اور پاپولرازم کا مباحثہ بھی کچھ کم اہم نہیں۔ مگر دانشوروں کی تمام تر توجہ کا مرکز سچ کو توڑ مروڑ کر ابہام اور جھوٹ میں بدل دینا ہے.۔ اس لئے ان کی دلچسپی بعداز سچ ابھرنے والے رجحانات اور پاپولرازم میں زیادہ ہوتی ہے۔ مورخ اور فلسفی جویلیان بگینی نے اپنی کتاب A short History of Truthمیں سچ کی دس اقسام فلاسفیانہ مباحثے کے لئے گنوائی ہیں مقبولیت پسند حضرات ان دس اقسام کو ہی لوگوںکے جذبات کو ابھارنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے کلاسیکل لٹریچر میں خوشی اور کاہلی کے درمیان بھی تعلق ثابت ہوتا ہے جس سے صوفی ازم کا تصور ابھرا ہے ایک کاہل شخص رویت کا اسیر ہوتا ہے جس میں اقتدار کو چیلنج کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی نعمان شوق کی غزل کے اس شعر کے مصداق ع فقیر لوگ ہیں اپنے اپنے حال میں مست نہیں تو شہر کا نقشہ بدل گیا ہوتا تاہم آج کی پولیٹیکل سائنس کی توجہ کا مرکز رجحان سازی اور سیاسی انجینئرنگ کے مطالبے پر ہے جو ریاست اور سوسائٹی کے بیانیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس عمل میں فرق صرف یہ ہے کہ ریاست کا بیانیہ بنیاد نعروںپر استوار ہوتی ہے جبکہ معاشرے کے نعرے ان کے غم و غصہ کا اظہار ہوتے ہیں۔ ان میںمعاشرے کی تلخیوں اور خوشیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کی بہتر مثال 2015-16ء کی شکریہ راحیل شریف کا نعرہ تھا جو سابق آرمی چیف کی دہشت گردی کی جنگ میں کامیابیوں کا اعتراف تھا مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مہم جنرل راحیل شریف کو صدارت میں توسیع کے لئے چلائی گئی جو بعد میں’’ جانے کی باتیں جانے دو‘‘ میں تبدیل ہو گئی آج کل شاہراہ دستور ایک بار پھر یہ جو سوہنی دھرتی ہے اس کے پیچھے وردی ہے کے بینرز سے بھری ہوئی ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی تحریک ہے جو جنرل راحیل کے پیچھے تھی اس سے موجودہ مہم کا پس منظر سمجھنے میںآسانی ہو جاتی ہے بیگنی کہتی ہے کہ سچ کو محض حقائق کے سلسلہ وار بیان سے واضح نہیں کیا جا سکتا ۔تاریخ توواقعات کو جوں کا توں بیان کردینے کا نام ہے، جو کافی نہیں۔ طاقت ور اشرافیہ کو یقین ہے کہ وہ ایسا کر کے اپنا راستہ بنا لیں گے۔ سچائی کیا ہے یہ اہم نہیں۔ پاپولرازم اور نعرے ان کے اعتماد میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں مگر کیا اس سے حالات بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سچ اور خوشی کا براہ راست تعلق جوڑنا خاصا مشکل کام ہے مگر لوگوں کو حقیقی خوشی اس وقت ہوتی ہے جب ان کو یقین ہو کہ ان کی شراکت داری سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔