سعادت حسن منٹو بھوک کو دنیا کی تمام لعنتوں کی ماں قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بھوک گداگری سکھاتی ہے۔ بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے‘ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے اس کا وار بھر پور، اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحدگی کا دکھ جھیلتا ہے اس کو پرنم الہ آبادی نے یوں بیان کیا ہے: غریبی جرم ہے ایسا کہ دیکھ کر مجھ کو نگاہیں پھیر کے اپنے پرائے جاتے ہیں اپنوں کے نگاہیں پھیرنے کا دکھ تو اس عذاب کے سامنے کچھ بھی نہیں جو سماج کے دھتکارے ہوئے سہتے ہیں۔ ان کا کوئی دوست نہیں ہوتا‘ کوئی ہمدرد نہیں ہوتا معاشرہ تو دور والدین اور بہن بھائی بھی ان سے بے زار ہوتے ہیں اور اس سلوک کی وجہ مرد نظر آنے کے باوجود معاشرے میں مردانگی کے مجوزہ اصولوں پر عمل نہ کرنا ہوتا ہے۔ اس توہین کی سزا ان کو زندگی کی آخری سانس تک جھیلنی پڑتی ہے یہاں تک کہ ان کو جنم دینے والے ان کو اپنی پہچان دینے کو بھی اپنی بے عزتی سمجھتے ہیںاور ان کو دھتکار دیتے ہیں۔ عبدالاحد نے کہا ہے کہ: مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے گندمی لمس میں ہے ذائقہ نان جوئیں ایسے میں ان کو آخری پناہ ان کے ہم جنس خواجہ سرائوں کے ہاں ہی ملتی ہے۔بھوک پائوں میں گھنگرو باندھ کر ناچنے پر مجبور کرتی ہے تو معاشرہ ان پر کھسرے کا لیبل لگا کر ان پر نوٹ نچھاور کرتا ہے۔ خواجہ سرا خدا کی ایسی بدنصیب مخلوق ہیں کہ جن سے معاشرہ اپنی ہوس کی تسکین تو چاہتا ہے مگر ان کو اپنانے یا اپنا سمجھنے پر آمادہ نہیں۔ کوئی ان کی حالت کو ان کی بدنصیبی سمجھ کر ان پر رحم کرتا ہے نا ہی کوئی نفسیاتی مریض سمجھ کر ان کا علاج کروانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہاں ان کو ہوس کی تسکین سمجھ کر خریدا جاتا ہے۔ہر کوئی ان کو خود ساختہ پکھنڈی، ڈھونگی کہہ کر دھتکارتا ہے۔ درد ان کی دوا بن جاتا ہے اور یہ کبھی دوسروں کی خوشی کے لئے تو کبھی اپنے دکھ میں ناچتے ہیں۔ کبھی پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے چوک چوراہوں پر بھیک مانگتے ہیں ۔سڑکوں، گلی محلوں میں روٹی کے لئے مارے مارے پھرتے نظر آنے والے کہاں سے آتے ہیں کسی کو جاننے میں دلچسپی نہیں ہوتی یہاں تک کہ ریاست جو تمام شہریوں کی ماںہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ بھی ان کو اپنے بچے تسلیم کر کے گلے لگانے پر آمادہ نہیں ۔ملک بھر میں 80ہزار کے قریب ہیجڑوں کے حصے میں سماج کی نفرت اور ریاست کی بے زاری لکھ دی گئی ہے۔70برس بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ان کا خیال آیا تو ان کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوا جو مختلف وجوہ پر مکمل نہ ہو سکا جس کا ایک سبب شناختی کارڈ کے خانے میں ان کی ولدیت کا مسئلہ تھا کہیں کوئی ان کو اپنی اولاد تسلیم کرنے میں شرم محسوس کرتا تھا تو کہیں ہیجڑا اپنے باپ کو یہ کہہ کر والد ماننے سے انکاری تھا کہ اس کے باپ نے اسے بے رحمی سے معاشرے کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا ۔ وہ اپنے باپ کے خانے میں اس انسان کا نام لکھوانا چاہتا ہے جو اس کو زمانے کی دھوپ چھائوں سے بچانے کا وسیلہ بنا۔اس کا خاندان تو وہ ہے جو اس کے دکھوں کی آگ میں برابر جلتا ہے۔ اپنے پرائے کے اس جھگڑے میں عدالت کے حکم پر کھسروں کی رجسٹریشن اور ان کو معاشرے کے دیگر شہریوں کے برابر حقوق دینے کا کام پہلے کیا مشکل تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے خواجہ سرا کی تعریف کا جھگڑا کھڑا کر کے اس کو ناممکن بنا دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سماج کے اس مسترد شدہ طبقے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک جو قدرتی طور پر یا پیدائشی طور پر تیسری جنس لے کر پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے جو خود یہ راستہ چنتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے خواجہ سرا کی رجسٹریشن سے پہلے طبی سرٹیفکیٹ کی تجویز دی۔ اس طرح یہ کار خیر نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی کے مصداق ناممکن ہو کر رہ گیا۔پہلے سے ٹھکرائے ہوئے پھر بھی کسی نہ کسی طرح زندگی بسر کرتے رہے مگر کورونا وبا نے ان قسمت کے ماروں کو زندہ درگور کر دیاہے۔ سماجی تقریبات پر پابندی سے ان کا روزگار جاتا رہا تو بھوک نے ان کو گداگری سکھا دی۔ لاک ڈائون کے نتیجے میں سڑکوں پر جمع ہونے والے مزدوروں اور بھکاریوں کی بھیڑ کے خوف نے حکومت کو ایکشن لینے پر مجبو کیا تو یہ بدنصیب بھی اس کا شکار ہوئے ۔ لاک ڈائون کے دوران سماجی تنظیموں اور حکومت کی طرف سے عوام کو بھوکوں مرنے سے بچانے کے لئے جتنے بھی اقدامات اٹھائے گئے ان میں یہ نصیبوں مارے کہیں نہ تھے۔ حکومت نے بے روزگار مفلس غربا کے 12000 روپے کی امداد کے لئے احساس پروگرام شروع کرنے کے لئے رجسٹریشن کا آغاز کیا، بیورو کریٹ سے لے کر سرمایہ داروں نے امداد کے لئے اپلائی کر دیا مگر یہ تیسری جنس اس سہولت سے اس لئے محروم رہی کہ ان کے پاس کوئی شناخت نہ تھی۔ ضرورت مند سے امداد کی شناختی کارڈ کی صورت میں رسید حکومت کی مجبوری تھی ۔کورونا کے باعث لاک ڈائون کے دوران بھی یہ بختوں مارے اپنے نصیب اور معاشرے کی بے حسی کو سہتے رہے۔اب لاک ڈائون کو بھی مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان ہو چکا ہے۔ عمران خان نے جب وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا اس وقت خاتون اول نے بیوائوں بے سہاروں کو مبارکباد دیتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والا وزیر اعظم آ گیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے خواجہ سرا ان کی نظر سے بھی اوجھل رہے۔ پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں دعویٰ تھا کہ وہ غربت اور پسماندگی کا دکھ محسوس کر سکتے ہیں مگر خواجہ سرا حکومت کے احساس پروگرام کے ساتھ ابھی تک وزیر اعلیٰ کی توجہ سے بھی محروم ہیں۔ اپیل ہی کی جا سکتی ہے کہ ریاست ان ٹھکرائے ہوئے، دھتکارے ہوئوں کی بھی ماں بنے جس کے درد کو الیاس بابر نے یوں بیان کیا ہے: ریشہ ریشہ گیت کا گوٹا ہر اک انگ میں رقص سانس کے بھیترکوئل بولے پنچھی جیسا شخص گالوں پر غازے کے پیچھے درد کے سوکھے پھول لچکیلی بانہوں کی شاخوں پر نفرت کی دھول ٹھمری کے بولوں میں پنہاں اکلاپے کا بین دن آنکھ میں کٹ جاتا ہے کیسے کٹے یہ رین کالی کالی قسمت ان کے نیلے پیلے خواب اتنے رنگوں میں اپنی پہچان بھی ایک عذاب