پاکستان بہت سی قدرتی آفات کا شکار ہوا ، جب 8، اکتوبر 2005ء کا زلزلہ آیا تو اسے قیامت صغریٰ قرار دیا گیا۔ اسکے نتیجے میں اسی ہزار افراد جاںبحق ہوئے، ایک لاکھ کے قریب زخمی اور تیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔پاکستان اس سارے نقصان کا مرکز و محور تھا۔ اسلام آباد میں ایک عمارت زمیں بوس ہو گئی جس میں بہت سے لوگ دفن ہوگئے۔ دن رات کی محنت شاقہ سے ملک بھر میں تمام متاثرین کی امداد کی گئی۔ ملکی وسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری با الخصوص امریکہ نے بہت مدد کی، عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اپناحصہ ڈالا۔اس مشکل سے بالآخر ہم نکل آئے اس کے لئے تمام طبقات کی کوششیں شامل رہیں جس میں حکومت، فوج، سرکاری ادارے ، مخیر حضرات، فلاحی تنظیمیں اور ہمارے عالمی دوستوں کی مدد قابل ذکر ہے۔ اسی طرح سے سوات آپریشن کے وقت جس طرح سے معاملات کوہینڈل کیا گیا جس میں پہلے سوات کے پر امن باسیوں کو وہاں سے نکالنا اور محفوظ جگہ پر اچھے طریقے سے انکی رہائش اور کھانے پینے کا بہترین انتظام کرنااور پھر آپریشن کی کامیابی کے بعد ان تمام لوگوں کو واپس گھروں میں آباد کرنا ایک کار دارد تھا جو کامیابی سے انجام پایا۔پھر دو بہت بڑے سیلاب آئے جس سے پورا ملک متاثر ہوا لیکن اس بلا سے بھی ہم بہت مئوثر انداز میں نپٹے۔ ان تمام آفات کے وقت ہمارے کچھ افراد کا جو رویہ رہا وہ انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک تھا۔ان تمام آفات کے وقت ایک مشترک حرکت دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ جو بھی مالی امداد یا سہولیات ان آفات کے متاثرین کے لئے مہیا کی گئیں ان میںبڑے پیمانے پر خرد برد دیکھی گئی۔ کئی معاملات میںتو انسانیت سوز رویہ دیکھنے میں آیا۔ اگر2005ء کے زلزلے کا ذکر کریں تو اس سلسلہ میں آنے والی امداد کی خرد برد اور زلزلے کے دوران ہونے والے لوٹ مار کے لرزہ خیز واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ ایسے موقع پر جو پتھر دل لوگ قدرتی آفت کا شکار بے بس اور مجبور لوگوں کی صورتحال سے اپنے وقتی فائدے کے لئے جو نقش چھوڑتے ہیں وہ اس ظلم کا شکار ہونے والے لوگوں کے لئے تو زندگی بھر کا المیہ ہوتا ہی ہے لیکن ایک قوم کے طور پر اسکے تصور کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس زلزلے میں سیاسی بیان بازی تو اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ ان دنوں سیاسی قائدین کے درمیان سننے میں آئی لیکن سرکاری حکام سے لیکر ٹینٹ اور دوسری ضروری اشیاء بنانے والے کاروباری حضرات نے خوب منافع خوری کی۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے میڈیا کے ساتھیوں سمیت بہت سے لوگوں نے کروڑ ہا روپوں کی فنڈ ریزنگ کی لیکن اس میں سے زیادہ تر فراڈ نکلے۔ حکومت نے بھی چپ سادھے رکھی کہ ایسے لوگ جو زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں ان سے بنیادی قسم کی ہی پوچھ گچھ کر لی جاتی۔اس رویّے کی وجہ سے کوئی بھی قوم اپنا اعتبار کھو دیتی ہے۔ کرونا وائرس کی وباء نے جب سے پاکستان کا رخ کیا ہے ہمارے ہاں سیاسی الزام بازی کا بازار گرم ہو گیا۔ کسی بھی روایتی ایشو کی طرح اس معاملے پربھی بحث کا انداز وہی تھا جس میں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کوشش جاری تھی اورعام عوام کا کوئی ذکر نہیں تھا جو اس وباء کے پھیلنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثرّ ہو سکتے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خور پھر میدان میں ہیں۔ وباء سے بچائو کی ہر چیز کے نرخ کئی گنا بڑھ چکے ہیں، ذخیرہ اندوزی کر کے من مانے نرخوں پر چیزیں بیچی جا رہی ہیں، حکومت اگرچہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن ایک رویہ پھر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم جب بھی کسی آفت کا شکار ہوتے ہیں ایک بے رحم طبقہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میںخوف خدا دلانے والوں کی کمی نہیں لیکن خوف خدا کرنے والے شاید کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔اس صورتحال میں عام عوام کے لئے سب سے بہتر پروٹیکشن احتیاط اور صرف احتیاط ہے۔ اگر بیانات اور دعووں پر رہے تو بہت دیر ہو جائے گی۔اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہ حکومت کی نیت پر کوئی شک ہے یا کوئی کاوش نہیں ہو رہی۔ یقیناً وفاقی حکومت، اور تمام صوبائی حکومتیں بہت کوشش کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں سندھ حکومت اپنی تمام تر نااہلی کے تاثر کے باوجود سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بلاول بھٹو زرداری نے ملک کے اندر کرونا وائرس کی رو ک تھام کے انتظامات کے بارے میں جو سیاسی گولہ باری جاری تھی اسکا موئثر سیز فائر کر ادیا ہے۔ انہوں نے بہت واضح انداز میں تمام سیاسی جماعتوں کو شٹ اپ کال دی ہے۔ اس قومی مسئلے پر جس میں لوگ اپنی جان سے جا سکتے ہیں اور جا رہے ہیں کوئی سیاسی مذاق نہیں ہو گا۔انکی دیکھا دیکھی دوسری اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی اچھے اچھے بیانات دینے شرع کر دئیے ہیں۔ اسی طرح سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بہتر رد عمل آ رہا ہے۔بلاول بھٹو کی طرف سے ان تمام دہاڑی داروں کے لئے حکومت طرف سے مدد کا کہا گیا ہے جو لاک ڈائون کی وجہ سے اپنی دہاڑی نہیں کما سکتے اور انکا کوئی اور ذریعہ آمدن بھی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت بھی اسی قسم کا پلان بنا رہی ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم آئندہ منگل کو اعلان کرنے جا رہے ہیں۔جس قومی یکجہتی کی ضرورت ہے وہ لیڈرشپ کی سطح پر اگر نظر نہیں آئے گی تو عوام کبھی ایک قوم کی طرح نہیں سوچ سکیں گے۔ ابھی تک کے آثار بتا رہے ہیں کہ اس معاملے کو ہماری سیاسی قیادت کافی سنجیدگی سے لے رہی ہے اور انکے لئے ایک سبق ہے کہ جب ملک کے لوگوں کیلئے کوئی شے آفت بنتی ہے تو قیادت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر جو قیادت عوام کی پرواہ کرتی اللہ کی مدد بھی یقیناً انکے ساتھ ہو گی اور ہم اس امتحان سے نکل آئیں گے۔