چاند جب بام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ دل بھی ہر کام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ الحمد للہ عید بڑی خوشگواری سے گزری۔ باقی رہی بات عید کے چاند کی تو عرصہ دراز سے ہماری آنکھ مچولی اس کے ساتھ چلتی رہی ہے۔ اس مرتبہ ذرا زیادہ ہی پرلطف صورت حال تھی ۔ جب رات ساڑھے گیارہ بجے رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا۔دوسری طرف منیب الرحمن صاحب نے تو فوراً فتویٰ ہی جڑ دیا کہ امت ایک روزہ قضا رکھئیے۔ ویسے میں دل کی بات کہتا ہوں کہ منیب الرحمن صاحب کو ایسا بیان دینا زیب نہیں دیتا کہ جس سے قوم میں انتشار پھیلے۔پوپلزئی صاحب کو اسی بات سے لوگ تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں: یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو ایک بات کا مزہ یقینا آپ کو بھی آیا ہو گا کہ پہلی مرتبہ سائنس دان فواد چودھری اور مفتی منیب الرحمن ایک ہی پیج پر دکھائی دیے ۔ فواد چوہدری یقینا کہتے ہونگے کہ رویت ہلال کمیٹی میں لائی گئی تبدیلی انہیں مہنگی پڑی ایک ویڈیو بھی لیک ہوئی اور آڈیو بھی مگر کچھ بھی بنایا اور دکھایا جا سکتا ہے اصل بات یہ کہ بڑے بڑے برگزیدہ مولانا حضرات نے اگلے روز تصدیق کر دی کہ واقعتاً صحیح اور درست عید منائی گئی ایمانداری کی بات ہے کہ ایک عالم دین اپنے ساتھیوں سمیت اس طرح پریشر وغیرہ میں ایسا فیصلہ نہیں کر سکتا کہ روزہ ہی کھا جائے۔ غلطی کی گنجائش ایک الگ بات ہے کہ سعودیہ سے بھی ایک مرتبہ ایسی غلطی ہوئی تھی اور انہوں نے اس کا فدیہ یا کفارہ پوری قوم کی طرف سے ادا کیا تھا ۔ ساڑھے گیارہ بجے کے چاند سے یہ مشکل ضرور ہوئی کہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے سب سے پہلے تو من چلوں کی چاند رات ماری گئی۔ وہ بے چارے رات بارہ بجے نکلے مگر تب تو خلقت سو رہی تھی ویسے بھی بارہ بجے ہوئے تھے۔ میں سحری کے وقت اٹھا اور دیکھا کہ ٹیبل خالی پڑی ہے میں نے بچوں کو غصے سے کہا ابھی تک سحری کا سامان نہیں رکھا۔ بچے ہنسنے لگے کہ ابو کو معلوم ہی نہیں کہ عید ہو چکی ہے۔پتہ چلا کہ بچے تو عید کے اعلان کے بعد سوئے ہی نہیں۔ سچی بات مجھے بھی بچپن یاد آ گیا کہ واقعتاً عید کی رات ہم بچے کب سویا کرتے تھے صبح ہونیوالی عید کی خوشی اور عیدی کی آرزو لڑکیاں مہندی وغیرہ لگاتیں ویسے بھی عید تو ہوتی بچوں کی ہے کہ انہوں نے عیدی لینا ہوتی ہے اور ہم عید دینے والوں میں۔ مجھے اپنا ٹی وی کا ابتدائی گیت یاد آیا کہ عید پہ لکھا تھا: آئو چڑھائیں چوڑیاں اور پھر ڈالیں جھولے ہم میں وہی شہزادی ہے جو آکاش کو چھولے کوئی مانے یا نہ مانے انیتسویں روز کے بعد آنے والی عید ہم سب کو اچھی لگتی ہے۔ اس میں ایک تھرل ہوتی ہے کہ جیسے کوئی لاٹری نکلی ہو وگرنہ تیس روزوں کے بعد تو عید نے آ ہی جانا ہوتا ہے اس مرتبہ اور زیادہ اچانک سب کچھ ہوا ایک بات میں نے دیکھی لوگ بھی کسی حال میں خوش نہیں۔ اس اچانک عید پر انہوں نے وہ وہ پوسٹیں لگا دیں کہ بس ساری بزلہ سنجی نکتہ آفرینی اور طنزومزاح ان میں عود آیا۔ ایک نے لکھا کہ فواد چوہدری نے روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا مگر سمجھانے پر اسے سمجھ آ گئی کسی نے لکھا کہ جمعہ کے روز دو خطبے کسی بھی حکومت پر بھاری ہوتے ہیں۔ ویسے یہ بھاری کا لفظ بھی دلچسپ ہے کہ زرداری کے لئے استعمال ہو تو مثبت نظر آتا ہے بہرحال بات تو ہم چاند کی کر رہے تھے: عبث نہیں کہ جو ہم تیری دید کرتے ہیں ہلال دیکھ کے کچھ لوگ عید کرتے ہیں ایک بات ہے کہ ایسی عید بھی ایک تاریخی واقع ہے ساڑھے گیارہ بجے رات تک چاند نکلنے کا یا چاند کی شہادتوں کا انتظار کیا گیا۔ عید سے اگلے روز تو ہمارے مہربان مکرم ملک محمد شفیق صاحب اپنے گھر پر عید ملن کا اعتمام کیا ہوا تھا او بہت ہی پیارے احباب جمع تھے۔ خاص طور پر ہمارے استاد مولانا حمید حسین صاحب موجود تھے۔ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ غلام عباس جلوی۔ پروفیسر رشید احمد انگوی‘ فہم خان‘ عبدالغفور ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر منہاس اشفاق‘سعید ملک‘ خلیل ملک اور دوسرے دوست تھے۔ ساری گفتگو چاند اور عید پر ہی ہوتی رہی۔ بہت ہی پر تکلف کھانا اور قہوہ اب آخر میں اپنے ملال کا تذکرہ بھی کرنا چاہوں گا کہ وہی جو پروین شاکر نے کہا تھا کہ ہم کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی کیا کریں اللہ کی اس کائنات میں غم اور خوشی ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں۔ عید سے پہلے انتیس کی طاق رات کو سوشل میڈیا پر ہمارے دوستوں کی پوسٹیں لگ گئیں کہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست طارق چغتائی صاحب ہمیں چھوڑ گئے۔ دل کو دھچکا لگا کہ ان کے ساتھ تعلق خاطر ہی نہیں بہت زیادہ ملنا جلنا تھا۔ وہ بزم چغتائی کے نام سے ماہ کی پہلی اتوار مشاعرہ رکھتے اور سب دوستوں کو جمع کرتے یہ رونق سالہا سال سے لگ رہی تھی۔ پیچھے چند سالوں سے یہ مشاعرہ یعنی بزم چغتائی کا مشاعرہ معروف فکشن رائٹر سلمیٰ اعوان کے سکول میں ہو رہا تھا نہایت اعلیٰ اوصاف کے مالک اور مرد درویش ذرا ان کا شعر تو دیکھیے: نرم لہجے میں گفتگو کرنا میں نے سیکھا ہے اپنی بیٹی سے ہم دوست ان کے جنازہ میں پہنچے۔ جناب سراج الحق صاحب نے منصورہ کی جامع مسجد میں ان کا جنازہ پڑھایا۔ بہت بڑی تعداد لوگوں کی موجود تھی۔سراج الحق صاحب نے طارق صاحب کے بھائیوں کے ساتھ تعزیت بھی کی سابق ناظم پنجاب یونیورسٹی طیب اقبال صدیقی بھی موجود تھے۔ بس جو اللہ کا اذن۔ایک دو روز قبل میں نے طارق چغتائی کا شعر اپنے کالم کے اختتام پر لکھا تھا: میں کنارے پہ لے کے جاتا تھا اب کنارے سے لگ گیا ہوں میں پروفیسر فرخ محمود کہہ رہے تھے ہمارے تو سر سے جیسے سایہ ہی اٹھ گیا۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ اپنے محبوبؐ کے صدیقے ہمارے درویش دوست کے ساتھ بہت ہی آسانی کا معاملہ فرما:آمین: آج کل ناراض لگتا ہے خدا کام اپنے سارے الٹے ہو گئے پنچھیوں کو کر دیا طارق رہا جب ہمارے گھر بھی پنجرے ہو گئے