وزیر اعظم عمران خان نے 2021ء کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو مفت طبی سہولیات کی فراہمی اور ملک بھر میں کوئی شخص بھوکا نہ سوئے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لئے حکومت پنجاب، کے پی کے ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ہر خاندان کو مفت علاج کے لئے انصاف صحت کارڈ فراہم کرے گی اور ملک بھر میں پناہ گاہوں میں مفت قیام طعام کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیاحکومت ملک کے تمام بے روزگاروں کو پناہ گاہوں میں قیام و طعام کی سہولیات فراہم کرنے کے وسائل رکھتی ہے؟ یقینا ایسا ممکن نہیں! چینی زبان کا ایک محاورا ہے کہ بھوکے کو مچھلی کھلانے کے بجائے مچھلی پکڑنے کا ہنر سکھائو تاکہ محتاجی سے خود کفالت کی منزل کی طرف سفر ممکن ہو سکے۔ دنیا کی کسی بھی حکومت کے لئے تمام شہریوں کی کفالت ممکن نہیں۔ حکومت 22کروڑ آبادی کو پناہ گاہوں کی صورت میں چھت اور خوراک فراہم نہیں کر سکتی۔ پاکستان کے معروف صحافی اور کالم نگار وسعت اللہ خان نے کراچی میں غیر قانونی ‘ غیر منظم اور بے ہنگم سوسائٹیوں کے بارے میں 2015ء میں ایک مضمون لکھا ، لکھتے ہیں’’ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب ریاست اپنے شہریوں کو سر چھپانے کی جگہ فراہم کرنے کے بنیادی فرض کی ادائیگی میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر وہ مسئلے کو سینگوں سے پکڑنے کے بجائے اس کے شکم سے جنم لینے والی کچی بستیوں کا علاج بذریعہ بلڈوزر کرتی ہے۔ پھر بس اتنا ہوتا ہے کہ نااہلی کے جسم پر بے گھری کا پھوڑا ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے اور کروڑوں لوگوں کی مستقل بے گھری ریاستی بے حسی کے سمندر پر پھولی لاش کی طرح تیرتی پھرتی ہے۔ جسے آپ نہ ڈبو سکتے ہیں نہ دفن کر سکتے ہیں۔ بس تعفن سے بچنے کے لئے دور ہٹا سکتے ہیں مگر ڈھیٹ لاش پھر ساحل پر آ جاتی ہے‘‘۔ وسعت اللہ خان کی یہ تحریر ظاہر ہے کراچی کے بے گھروں کے لئے تھی مگر یہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ آج ہر پاکستانی بالخصوص بڑے شہروں کی اکثریت کا ہے۔ ملک میں بڑھتی کرپشن ،سرکاری اداروں کی بے حسی اور نااہلی ملک میں بے روزگاری اور افلاس کے ایسے سمندر کو جنم دے رہی ہے جس میں پاکستانیوں کا مستقبل غرق ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ آج ملک کے 70فیصد شہریوں کے لئے گھر کا خواب خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔پنجاب کے چار شہروں لاہور، قصور ،شیخو پورہ اور ننکانہ صاحب کے شہریوں کو بہتر رہائشی سہولیات کی فراہمی ایل ڈی اے کی ذمہ داری ہے۔ مگر عالم یہ ہے کہ لوگوں کی زبان پر ساقی فاروقی کا یہ شعر ہے: اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے مدت ہوئی سوچا تھا گھر جائیں گے اک دن ایل ڈی اے کی کارکردگی بارے چیف جسٹس کے ریمارکس ہی حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ عدالت نے ایل ڈی اے کے زیر انتظام علاقے میں گرین ایریا میں 557رہائشی غیر قانونی سوسائٹیاں بنائے جانے پر ایل ڈی اے میں تعینات رہنے والے تمام ڈی جیز اور ان کے ادوار میں بننے والی سوسائٹیوں کی فہرست طلب کر لی ہے۔ بصورت دیگر موجودہ ذمہ داروں کو جیل جانے کے لئے تیار رہنے کا کہا ہے۔ اس سے مفر نہیں لاہور شہر کی تباہی کا ذمہ دار ایل ڈی اے ہے۔ ایل ڈی اے کی انتظامیہ نے قومی ادارے کو نہ صرف رئیل سٹیٹ کے ٹائی کونز کے پاس گروی رکھ دیا ہے بلکہ ایل ڈی اے افسر رئیل اسٹیٹ میں خود بڑے انوسٹر بھی بن چکے ہیں یہ بدعنوانی اور رشوت کی زنجیر ہی تھی جس نے دو نجی سوسائٹیوں کی مارکیٹ بڑھانے کے لئے ایل ڈی اے کی انتظامیہ کو اپنی ایونیو ون سوسائٹی میں ترقیاتی کام روکے رکھنے پر مجبور کے رکھا۔ ایل ڈی اے کے اہلکاروں نے ایونیو ون میں قبضہ گروپوں کو غیر قانونی قبضے کرنے میں معاونت کی بلکہ کچھ معاملات کو جان بوجھ کر عدالتوں میں زیر التوا رکھا گیا تاکہ نجی سوسائٹی کے پلاٹ سونے کے بھائو فروخت ہو سکیں۔ ایل ڈی اے ایونیو ون سکیم 19سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک مکمل نہ ہو سکی۔ گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ ایل ڈی اے کے حق میں دیا تو بجائے اس کے کہ سوسائٹی میں فوری طور پر ترقیاتی کام شروع کیا جاتا انتظامیہ کی طرف سے حیلے بہانوں سے معاملہ کو طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ لوگوں کو بیزار کر کے اپنے پلاٹس بیچنے پر مجبور کرنا بتائی جاتی ہے ۔دروغ بر گردن راوی ایل ڈی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنے ایک رشتہ داروں کو مشورہ دیا ہے کہ ایونیو ون کے ایل بلاک کے جتنے پلاٹ ملتے ہیں خرید لئے اور اڑھائی کروڑ روپے اپنے بھی انویسٹ کرنے کے لئے دیے ہیں۔ ایل ڈی اے میں لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ جوبلی ٹائون میں سنٹرل پارک کی 52کنال اربوں روپے کی جگہ منظور نظر افراد کو سٹیڈیم کے لئے الاٹ کر دی گئی اور اس کے لئے قانون کے مطابق وزیر اعلیٰ سے منظوری بھی حاصل کرنا بھی مناسب نہ سمجھا گیاجبکہ سٹیڈیم کا 40فیصد کام بھی مکمل ہوچکاہے۔ جبکہ عام آدمی کو ادائیگی کے بعد پلاٹ نہیں مل رہے ۔ ایل ڈی اے کے اپنے ریکارڈ کے مطابق 19سال پہلے شروع کی گئی سوسائٹی ایونیو ون میں 65فیصد پلاٹ دوسری اور تیسری جگہ ٹرانسفر ہو چکے ہیں 35فیصد افراد اپنے گھر کی حسرت لیے دنیا سے ہی رخصت ہو چکے ہیں جو لوگ پلاٹ فروخت کر کے دنیا سے رخصت ہوئے اگر ان کو بھی شمار کیا جائے تو ایل ڈی اے ایونیو ون کے 70فیصد مالکان اپنے گھر کا خواب آنکھوں میں بسائے منوں مٹی تلے سو گئے۔ ان کو ایل ڈی اے ایونیو ون کے قبرستان میں دفن ہونا بھی نصیب نہ ہوا۔ ایل ڈی اے انتظامیہ کی کارکردگی اقبال ساجد کے مطابق یہ ہے: پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہ کیا ایل ڈی اے کے ہر سال پچھلے ہر برس کی طرح لفظوں کی کھیتیاں بو نے سے ایل ڈی اے ایونیو ون الاٹیوں کے خوابوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔