ملک کے موجودہ حالات چاہے وہ سیاسی ہوں، اقتصادی ہوں یا پھر معاشرتی ایسا لگتا ہے جیسے ہر چیز کو واپسی کا گئیر لگا ہو ا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے پیارے ملک کو کسی کی نظر لگ گئی ہے ۔ہر طرف افرا تفری کا عالم ہے ۔ملک کا وزیر داخلہ جس کا کام عوام کی سکیورٹی اور حفاظت کا خیال رکھنا ہے خود گولی کا شکار ہو جاتا ہے ،جائیں تو کدھر جائیں ۔بیس کروڑ عوام کا ملک جو کہ دنیا کے سامنے ایک مثال بننا تھا ایسے ایسے مسائل کا شکار ہے کہ دشمن تو دشمن ہمارے دوست بھی دور بھاگ رہے ہیں ۔ہم ہیں کہ سوائے طعنہ زنی کے کسی اور بارے میں سوچ ہی نہیں پاتے ۔ سیاسی ابتری کا یہ عالم ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے نا صرف دست و گریباں ہیں بلکہ ایک دوسرے کو صف ہستی سے مٹانے کی باتیں کر رہی ہیں ۔پوری دنیا میں ایسا ملک نہیں ہوگا جہاںسیاست دان ایک دوسرے سے اس حد تک نفرت کرتے ہیں کہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ چلیں مان لیا کہ سیاست میں ایک دوسرے کو لعن طعن کرنا پرانی روش ہے ۔یہ کہاں کی سیاست ہے کہ آپ ایک دوسرے کا وجود ماننے سے ہی انکاری ہوجائیں ۔نوازشریف فرماتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ ان کا مقابلہ نہ آصف زرداری سے ہے نا عمران خان سے ہے ۔وہ آجکل کسی خلائی مخلوق کی بات کرتے سنائی دیتے ہیں ۔سیاست میں نوارد بلاول زرداری فرماتے ہیں نواز شریف کو خلائی مخلوق اگر اتنی ہی پسند ہے تو راکٹ میں بیٹھ کر خلا میں چلے جائیں کیونکہ مقابلہ ان کا پھر وہیں بنتا ہے ۔عمران خان اور ان کے اردگرد کے لوگ خوش ہیں کہ نواز شریف اور ان کا خاندان کیسز بھگت رہا ہے ۔جہانگیر ترین فرماتے ہیں اب عمران خان کو پی ایم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔چلیں اچھی بات ہے لیکن ترین صاحب کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ پی ایم بننے کے لئے الیکشن لڑنا پڑتا ہے ۔الیکشن لڑنے کے لئے ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جہاں تما م سیاسی جماعتیں اپنا اپنا مدعا لیکر عوام میں جاتی ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر الیکشن ہو بھی گئے تو ہارنے والی جماعت رزلٹ نہیں مانے گی تو پھر اس ملک کا کیا بنے گا؟ اس ساری ہنگامہ خیزی میں ایک عنصر جو غائب ہے وہ یہ عام عوام جو دن رات ذلیل، خوار اور رسوا ہو رہے ہوتے ہیں ۔پورے ملک کے طول و ارض میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں کے لوگ کہیں کہ وہ اپنے حکمرانوں سے خوش ہیں ۔آپ لاہور کوئٹہ کراچی اور پشاور کہیں بھی چلے جائیں وہاں لوگ شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں ۔ صحت تعلیم ،امن عامہ ،انصا ف،غرض کوئی ایک بھی محکمہ ایسا نہیں جس سے لوگ مطمئن ہوں ۔ہا ں کہیں کہ ان کی حکومت ان کے لئے اچھے کام کر رہی ہے ۔آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی ۔کیوں ہمارے ملک میں ابھی تک شرح خواندگی 58فیصد ہے ؟کیوں آدھی سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے ؟کیوں ہمارے تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ؟پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے دارلحکومت میں پہلی سے لیکر پانچویں جماعت تک کے بچے سکول میں داخلے کے لئے ٹیسٹ دیتے ہیں ۔یہ کتنا بڑا فرق ہے ۔اور پھر میرٹ بنتا ہے ،کیوں ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔لوگ ننگ اور بھوک کا شکار ہیں ۔آخر کچھ تو وجہ ہو گی ۔اقتصادی طور پر اسحاق ڈار اس ملک کی جو حالت کر گئے ہیں اس بارے میں بندہ کیا لب کشائی کرے ۔ بیرونی قرضے نوے ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں ۔اگلے سال صرف قرضے اتارنے کے لئے 15سے 20ارب ڈالر قرضوں کی ضرورت ہوگی ۔کہاں سے اتنا زیادہ پیسہ آئے گا ۔شرح نمو ہے کہ بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ۔تجارتی خسارہ ہے کہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچ چکا ہے ۔حکومت ہے کہ کسی چیز کا ادراک ہی نہیں ۔اور سب سے بڑا ظلم جو تمام لوگ اس ملک کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ہے اس ملک کی لسانی ،علاقائی اور مسلکی بنیادوں پہ تقسیم ۔ہمیں تو صرف ایک بات پڑھائی گئی تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ اللہ ۔اور اس کے بعد قائد اعظم نے انصاف اور مل جل کر رہنے کی بات کی ۔کیا وجہ بنی کے ستر سال بعد ہم ان مسائل کا شکار ہیں ؟کیا یہ وہ وجہ تو نہیں جس کا ذکر میاں نواز شریف کرتے پھر رہے ہیں یا پھر کوئی اور ۔کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلے گا ۔یا پھر کوئی امید ابھی باقی ہے ۔کبھی کوئی طالع آزما ہمیں سنہری مستقبل کی نوید سناتا ہے اور کبھی کوئی جمہوریت پسند ہمیں بھاشن دیتا ہے کہ اگر اس ملک کو آگے بڑھنا ہے تو اس کا حل صرف اور صرف ووٹ کی حرمت میں ہے ۔ووٹ کی عزت میں ہے ۔میرے نزدیک ان تمام مسئلوں،تمام ایشوز اورتمام برائیوں کا حل صرف ایک عمل میں پنہاں ہے کہ وہ خود احتسابی کا عمل ہے ۔چاہے وہ عوامی سطح پہ ہو کہ انفرادی سطح پر یا پھر ادارتی سطح پر ۔ جب تک بحثیت قوم ہم اس پہ عمل نہیں کریں گے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس دلدل سے باہر نہیں نکال سکتی ۔بے شک ہم آسمان سے تارے بھی توڑ لائیں۔کچھ نہیں ہوگا ۔جب تک ہم اپنی غلطیوں کو مانتے ہوئے بھی معافی کے طلب گار نہیں ہوتے ۔یہ وہ عمل ہے جس کو اللہ کی ذات نے بھی بہت افضل گردانا ہے ۔اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں کس کس نے کیا ماننا ہے اوراپنے آپ کو لوگوں کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنا ہے ۔شروع کرتے ہیں نواز شریف اور ان کے خاندان سے میرے نزدیک شریف خاندان کو کچھ ماننے اور کچھ بتانے کی ضررو ت نہیں ۔آل شریف ایک کام کریں پوری دنیا میں ان کا جو بھی کاروبار ہے اس کو بیچ کر پاکستان میں واپس آجائیں ۔حسن اور حسین برطانوی شہریت کو ترک کر دیں ۔اپنے والد اور ہمشیرہ کی ووٹ کو عزت دو کی تحریک کا حصہ بنیں ۔اس سب کے بعد شریف خاندان صرف ایک حلف دے کہ آج کے بعد ان کا جینا مرنا اس ملک کے ساتھ ہوگا ۔وہ کوئی جائیداد اس ملک سے باہر نہیں بنائیں گے ۔ پی پی پی اس سے بھی آسان کام کر سکتی ہے ۔زردری صاحب گو شہ نشینی اختیار کریں بلاول ،آصفہ اور بختاو ر کو پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں پارٹی میں جتنے پرانے لوگ ہیں ان پہ کرپشن کے الزمات ہیں یا کرپشن میں ملوث ہیں ان کو پارٹی سے نکال کر باہر کریں ۔پی پی پی کو ایک نئی جہت پر ڈالیں ۔بہت ہو گیا روٹی کپڑا اور مکان کا ڈرامہ ۔یہ اکیسویں صدی اور اور ساٹھ فیصدسے زائد آبادی نوجوانوں کی ہے ۔بلاول ان سے دور حاضر کی بات کریں اور آگے بڑھیں ۔ بلاول بھی اپنے خاندان کی تمام جائیدادیں ملک میں واپس لائیں ۔عمران خان صاحب کو متذکرہ بالا اقدامات کرنے ضرورت ہی نہیں ۔مالی طور پر پاک ہونا انکی سب سے بڑی صفت ہے ۔جو ابھی تک لوگوں کو ان سے جوڑے ہوئے ہے ۔لیکن ان کو جو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے وہ پی ٹی آئی کو بد عنوان عناصر سے دور رکھنا ہے۔جس طرح آج کل لوگ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ دودھ سے دھلے ہوئے پاک صاف ہیں ۔بہت سے لوگ اسی سیاسی نظام کی پیداوار ہیں جس نے اس ملک کو اس نہج پہ پہنچایا۔چلو مان لیا کہ پارٹی میں آنے والوں کو نہیں روکا جا سکتا ۔لیکن جس دن عمران خان نے ایسے لوگوں کو ٹکٹس دیے جن کا ماضی داغدا ر ہے تو خان صاحب کو ایک بات ضرور ملحوظ خاطررکھنی چاہئے کہ میڈیا کے اس دور میں کچھ چھپا ہوا نہیں ہے ۔اس صورت میں عمران الیکشن لڑنے سے پہلے ہی ہار جائیں گے ۔ تھوڑا ذکر خلائی مخلوق کایہ مخلوق اسی صورت میں نمودار ہوتی ہے جب ہمارے سیاست دان سیاست کو صرف اپنی جیبیں بھرنے اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔میں پورے دعوے سے کہتا ہوں جس دن ہمارے سیاسست دان مالی طور پر صاف ہوجائیں اپنی ذاتی خواہشات کو قومی خواہش پہ قربان کریں گے تو کوئی خلاقی مخلوق نہیں آئے گی ۔اب فیصلہ ہمارے سیاست دانوں کو کرنا ہے کہ انہوں نے خود ملک کو سنبھالنا ہے یا پھر خلائی مخلوق نے ۔