میرے کالم ’’دام خیال‘‘ کا عنوان برسوں پہلے محمد صلاح الدین شہید نے تجویز کیا تھا۔ لہٰذا بعد میں جہاں کہیں بھی میں نے لکھا اسی عنوان سے لکھا۔ کبھی غور نہیں کیا کہ اس عنوان کے معنی کیا ہیں؟ دام خیال یعنی خیالات کا جال کیا ہے اور مرزا غالب نے جو اس شعر میں ہستی کے فریب میں نہ آنے سے روکا‘ منع کیا‘ یہ کہہ کر کہ ع ہستی کے فریب میں آ جائیو اسدؔ کیوں کہ عالم تمام حلقہ دام خیال ہے۔ تو یہ ہستی کا فریب کیا ہے اور سارا عالم اور عالم انسانیت جو خیال کے جال میں گرفتار ہے تو کیوں اور کیسے؟ یہ ایک صوفیانہ اور فلسفیانہ خیال ہے کہ جو کچھ سامنے ہے وہ ایک مایا ہے‘ فریب ہے‘ دھوکا ہے۔وجود کی اصل حقیقت ایک خیال کے سوا کچھ نہیں مگر کس کا خیال؟ خداوند تعالیٰ کا؟ یا خود انسان کا؟ مرزا نے شعر میں اس کی وضاحت نہیں کی غالباً اس لئے کہ ابہام شعر کا حسن ہے۔ یہ وضاحت شعر کے قاری پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ کیا معنی اخذکرتا ہے۔جیسا کہ آپ نے ’’معنی فی بطن شاعر‘‘ کا محاورہ سن رکھا ہو گا ۔ شاعری واردات قلبی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی انگریزی شاعر نے کہا تھا کہ شاعری ایک الہامی حقیقت ہوتی ہے کوئی بھی شاعر یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ اب وہ شعر کہنے جا رہا ہے۔ اس لئے کہ شعر ارادے سے نہیں کہا جاتا‘ اس کے لئے آمد کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو شعر آورد کا نتیجہ ہوتا ہے جس میں شعر کہنے کے لئے ارادے سے کام لیا جائے وہ بے مزہ اور لطف و حسن سے محروم رہ جاتا ہے۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ مرزا غالب نے ہستی یا وجود کو جو فریب کہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دنیا اور دنیا کی جملہ حقیقتیں وہم و گماں کے سوا کچھ نہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہیں وہ التباس نظر یا نظر کا دھوکا ہیں۔اصل حقیقت خیال کی ہے۔ خیال اس وجود اعلیٰ کا جس نے جملہ اشیا وجود اور کائنات کوخلق کیا۔ گویا وجود دراصل وجود اعلیٰ کا ایک خیال ہے۔ جیسے انسان کا ذہن خیالات اور تصورات کی آماجگاہ ہے۔ جو کچھ وہ سوچتا ہے اور خیالی پلائو پکاتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں ان کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ وہ اپنے خیال میں خود کو اور دوسروں کو جس طرح دیکھتا ہے وہ گمان اور وہم ہی ہوتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے۔ مرزا غالب کا یہ خیال جو شعر میں وارد ہوا‘ وہ بھی خیال ہی ہے ضروری نہیں کہ وجود کی حقیقت یہی ہو۔ بہت سے مغربی فلسفیوں نے بھی خیال کو وجود پر مقدم کیا ہے۔ یعنی اصل حقیقت خیال ہی ہے خیال ہی سے وجود کی تصدیق ہوتی ہے۔ جملہ مخلوقات میں انسان اس لئے افضل ہے کہ وہ اپنے وجود اور اپنی موجودگی کا احساس رکھتا ہے۔ میں اگر ہوں تو اس لئے ہوں کہ مجھے اپنے وجود اور اپنی موجودگی کا شعور ہے۔ ممکن ہے میری پالتو بلی کو اپنے ہونے کا احساس نہ ہوکیوں کہ اس کے شعور کی سطح مجھ جیسی نہیں۔ گویا حیوان اپنی جبلت پر زندہ ہیں۔ بھوک اور پیاس جبلتیں ہیں، چنانچہ حیوان کھانے پینے ہی کے لئے زندہ ہیں۔ یہ انسان ہے جو کھانے پینے کے ساتھ سوچنے اور اپنی سوچ کے ماتحت زندگی گزارنے کے لئے زندہ رہتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں ہم خواب دیکھتے ہیں۔ ہم جو کچھ ہیں اس سے بہتر ہونا چاہتے ہیں۔ غریب ہیں تو امیر اور کم علم ہیں تو باعلم ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔ جملہ مخلوقات میں یہ شرف صرف انسان ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بدل سکتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ وجود کو بدلنے کے لئے خیال کا بدلنا ضروری ہے کیوں کہ وجود خیال کے ماتحت ہے۔ تبدیلی پہلے ذہن اور خیال میں آتی ہے اس کے بعد وہ اپنے آپ کو یا اپنے وجود کو بدلتی ہے ہم اگر انفرادی یا اجتماعی سطح پر زوال و انحطاط کا شکار ہیں تو اس لئے کہ ہماری سوچ اور ہمارے خیالات جمود کا شکار ہیں۔ ہمارے ذہن میں حرکت نہیں ہے ہم سوچتے نہیں۔ ہم اپنے اندر تبدیلی کی ایک خفیف سی خواہش رکھتے ہیں مگر یہ خواہش اتنی کمزور اور برائے نام ہے کہ یہ ہمارے وجود کو حرکت میں لانے سے معذور ہے۔ ہمیں کوئی قانون نہیں بدل سکتا۔ کوئی نصیحت بھی کارگر نہیں ہوتی۔تو اس لئے کہ ہماری آرزو اور ہماری خواہشیں اپنے آپ کو بدلنے کی ہے ہی نہیں۔ ہم تبدیلی کے لئے لفظوں کی جمع خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارا باطن اس کی گواہی نہیں دیتا۔ ہمارے عمران خان ’’تبدیلی‘ تبدیلی‘‘ کا لاکھ نعرہ لگائیں تو تبدیلی نہیں آئے گی کیوں کہ ان کی ذاتی لغت ہی تبدیلی کے معنی سیاسی تبدیلی ہے اگر تبدیلی کا یہ مفہوم ان کے ذہن میں ہوتا کہ سیرت و کردار کی تبدیلی، افکار و تصورات میں تبدیلی، رویوں اور عادتوں میں تبدیلی تو پھر الیکشن میں حصہ لے کر اقتدار پر قبضہ جمانے کے بجائے معاشرے اور افراد کو اندر سے بدلنے کی تحریک چلاتے۔ تحریک انصاف کا مطلب فی الواقع انصاف اور عدل کو رواج دینا ہوتا تو پہلے ان سوراخوں کو بند کرنے کی فکر کرتے جن سے ظلم و ستم رس رس کر معاشرے کو ستم رسیدہ معاشرہ بنا رہا ہے۔ حکومت کرنے میں انہیں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ خارجی حقیقتوں کو اصل حقیقت سمجھتے ہیں۔ لیکن انہیں سیاست کا تجربہ بتاتا ہے کہ حقیقت وہ نہیں جسے وہ حقیقت سمجھتے ہیں۔ سیاست اور حکومت کی حقیقت وہ ہے جس کے لئے انہیں اپنے بار بار یوٹرن لینا پڑتا ہے۔ اپنے پچھلے موقف سے بار بار منحرف ہو کر نیا موقف اس لئے اختیار کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے حقیقت کو جس طرح سمجھا وہ محض فریب تھا۔ ایک دھوکا تھا چنانچہ کامیابی کے لئے دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں بار بارجھکنا پڑتا ہے۔ اپنے ہی موقف کو بدلنا پڑتا ہے اور اس کا عقلی جواز وہ بتاتے ہیں کہ سیاست میں کامیابی کے لئے تمام بڑے لوگوں نے یہی کیا ہے۔ حالاں کہ صاف صاف یہ کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہ تھا کہ معاملات سیاست و حکومت کے ویسے نہیں نکلے جیسا میں سمجھتا رہا۔ اس لئے مجبوراً مجھے وہ کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو مجھ سے پہلے والوں نے کیا۔ اب میں بعض مذہبی جماعتوں کی اور کیا مثال دوں جو معاشرے کو بدلنے کے لئے اٹھیں تو جلد ہی انہیں احساس ہو گیاکہ افراد معاشرہ کو بدلنا تو ایک پیغمبرانہ کام ہے لہٰذا شارٹ کٹ یہ ہے کہ اقتدار حاصل کیا جائے۔ اقتدار مل جائے گا تو معاشرے کو بدلنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن نصف صدی کی جدوجہد نے بتا دیا کہ انتخابات کے ذریعے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ کیوں کہ ہم جیسے ملکوںمیں معاشرے کا ڈھانچہ ہی ایسا ہے کہ الیکشن روپے پیسے اور اختیار و اثرورسوخ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف وہ جماعتیں ہیں جو تبلیغ، تلقین اور نصیحتوں سے لوگوں کو بدلنا چاہتی ہیں تو وہ اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب تو رہی ہیں لیکن معاشرے کو بدلنے میں انہیں بھی ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس لئے کہ معاشرے کو تخریب اور بگاڑ کا شکار کرنے والی قوتیں زیادہ موثر ہیں۔ آئیے اس پہ غور کریں کہ ہم اپنے آپ کو اور معاشرے کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ خیال سے وجود تک میں آتے آتے کتنی مشکلیں اور کٹھنائیوں کی گھاٹیاں پڑتی ہیں۔ یہ موضوع اگلے کالم میں۔!