28 ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختون خوا کے دو قبائلی اضلاع مومند اور باجوڑ کا دورہ کیا۔وزیراعظم عمران خان نے دونوں اضلا ع میں ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے کے بعد عمائدین علاقہ سے خطاب بھی کیا ۔انھوں نے عمائدین علاقہ سے خطاب میں کہا کہ خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع اب سیاحت کا مرکز ہونگے۔افغانستان کے ساتھ متصل سرحد پر بازار بنائیں جائیں گے جس سے تجارت کے مواقع میسر ہونگے۔انھوں نے قبائلی اضلاع کی عوام کو یہ بھی خوش خبری سنائی کہ اب سارے ملک سے آپ کے رابطے قائم ہونگے۔وزیراعظم عمران خان نے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی طرف سے تین فیصد حصہ نہ دینے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ان کی حکومت ہے، جبکہ بلوچستان میں وہ حکومت کے اہم اتحادی ہیں بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ان ہی کی حکومت ہے۔اگریہ تینوں صوبے این ایف سی ایوارڈ میں سابق فاٹا اور خیبر پختون خوا کے موجودہ قبائلی اضلاع کو تین فیصد دینے پر راضی نہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تینوں صوبوں کے تحفظات کو دور کریں اور ضم اضلاع کو ان کا حق دیں۔رہی بات سندھ کی تو وہ اگر پیسے نہ بھی دے تو اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔مگر وعدے کے مطابق سندھ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنا عہد نبھائے۔وزیر اعظم عمران خان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سندھ حکومت کے ساتھ اس معاملے پر بات کرکے ان کو اس فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے قائل کریں۔ دورہ مومند اور باجوڑ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے عمائدین سے خطاب کرتے وقت سیاحت ، تجارت ، سرحدی بازاروں اور پورے ملک سے قبائلی اضلاع کے رابطوں پر زور دیا ، لہذا ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقہ جات (فاٹا ) اور خیبر پختون خوا کے موجودہ قبائلی اضلاع کے مسائل کون سے ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔مئی 2018 ء میں فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا۔دوسال اور چار مہینے گزر گئے۔ضم اضلاع کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا عمل جاری ہے، لیکن رفتار بہت سست ہے۔وفاقی ،صوبائی حکومت اور سرکاری محکمے روایتی انداز تساہل سے کام لے رہے ہیں جبکہ وہاں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔خیبر پختون خوا کے ضم اضلاع کا سب سے اہم مسئلہ ان کو آپس میں جوڑنے اور ملک کے ساتھ ملانے کا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ چین ، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک )کے تحت موٹر وے طرز کی ایک بڑی شاہراہ کا منصوبہ ضم اضلاع کے لئے شروع کر ے کہ جس سے یہ اضلاع آپس میں بھی مل جائیں اور پورے ملک سے بھی ان کا رابطہ ہو۔یہ منصوبہ سی پیک کے تحت اس لئے ضروری ہے کہ افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ساتھ تجارت اس شاہراہ سے ہوسکے گی اس لئے چین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لہذا اس منصوبے کی تکمیل کے لئے فنڈز کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔جب تک وفاقی اور صوبائی سرکار ہنگامی بنیادوں پر اس بڑی شاہراہ پر کام کا آغاز نہیں کرتی اس وقت تک وہاں نہ سیاحت کا فروغ ممکن ہے اور نہ ہی کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔جب موٹر وے طرز کی بڑی شاہراہ بنے گی تو سیاحت اور کاروبار کے لئے جانے والوں کو راستہ اور رہائش ملے گی تو تب لوگ وہاں جائیں گے ۔ اب وہاں نہ جانے کے لئے سڑک ہے اور نہ رہنے کے لئے کوئی انتظام تو کوئی کیوں وہاں جائے یا کاروبار شروع کرے ؟ ضم اضلاع کا ایک اور اہم مسئلہ موبائل اور انٹر نیٹ سروس بھی ہے ۔وہاں یہ دونوں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی وہاں سیاحت اور کاروبار کے لئے تیار نہیں ۔اگر سڑکوں کے ساتھ موبائل اور انٹر نیٹ کا مسئلہ حل بھی ہو جائے تو بجلی غائب رہتی ہے۔گر میوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ گھنٹوں کی بجائے دنوں پر محیط ہوتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ قبائلی اضلاع جنت نظیر علاقہ ہے لیکن جہاں تک جانے کے لئے نہ سڑک ہو ۔ نہ رہائش کے لئے ہوٹل ۔ نہ اپنوں سے رابطے کے لئے موبائل اور انٹر نیٹ سروس ہو اور نہ ہی بجلی تو کو ئی پاگل ہی ہوگا کہ جو اس جنت کو دیکھنے اور اس میں اکیلے یا اہل خانہ کے ساتھ رہائش کا رسک لے گا۔قبائلی اضلا ع کے حسن کو جنگلات ، پہاڑوں ، زراعت ، لائیوسٹاک اور آبشاروں نے چار چاند لگا دئیے ہیں، لیکن وہاں وفاقی اور صوبائی حکومت اور متعلقہ محکمے اس جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں۔جب سیاح وہاں جائیں گے تو روز مرہ کے استعمال کے لئے جنگلات کی بے دردی سے ساتھ کٹائی ہوگی۔جس سے وہاں کا قدرتی حسن برباد ہوجائے گا، اس لئے ضروری ہے کہ وہاں سوئی گیس اور ایل پی جی کی رسائی ممکن بنا دیں۔وہاں کے آبشاروں اور چشموں کے تحفظ کے لئے بھی پہلے سے اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ وہ گندگی کے ڈھیر بن جائیں گے۔ضم اضلاع میں اگر زراعت اور لائیوسٹاک نہ ہو تو پھر شہری لوگ کیوں وہاں جائیں ؟اس لئے ضروری ہے کہ وہاں ان دونوں شعبوں میں لوگوں کو سہولیات دی جائے۔یاد رہے کہ افغانستان کا انحصار بھی یہاں کی زراعت اور لائیوسٹاک پر ہے۔ صحت کی سہولیات کی فراہمی قبائلی اضلاع کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔جس سیاحتی مقام پر سیاح اور سرمایہ کار کو سردرد کی گولی کے لئے خوار ہونا پڑے گا تو کیا کوئی وہاں سیاحت اور کاروبار کے لئے جائے گا؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ضم اضلاع میں ہسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت کو فعال کیا جائے۔وہاں ہسپتالوں میں طبی عملے کی کمی ہے ،لیبارٹریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔افغانستان کے ساتھ متصل سرحد پر بازار بنانے کا ارادہ نیک ہے لیکن اس منصوبے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ماضی میں یہی سرحدی راستے سمگلر اور دہشت گرد استعمال کرتے رہے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ان بازاروں کو فعال بنانے سے قبل وہاں سمگلنگ اور دہشت گردی کی روک تھام کے اداروں کو فعال کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر سرحدی بازاروں کی کمائی سمگلروں کی جیب میں جائے گی قومی خزانے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔