جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا کبھی بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں بات بڑی آسان اور سیدھی ہے کہ آپ خیر کی طرف آ جائیں تو خیر ہی خیر ہے۔ ہمارا مسئلہ اصل میں یہی ہے کہ ہمارے پاس زادِ راہ نہیں۔’’میں تہی دست ہوں اور یہ سوچتا ہوں۔ اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں‘‘ یہ تجربہ تو سب کا ہے کہ کوئی پیار کے بول بولے تو لگتا ہے کسی نے دل پہ تسلی کا ہاتھ رکھا ہے۔ میں نے ’’سب محفوظ ہے ‘‘ کالم لکھا تو بے شمار فیڈ بیک آیا کہ آپ نے حوصلہ بڑھایا اور امید افزا باتیں کیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ اکثر لوگ میری طرح سوچتے ہیں کہ ہم اس پر کس لئے فکر مند ہو جاتے ہیں جو ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں یہ تو علیؓ نے بھی فرمایا تھا کہ انہوں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے خدا کو پہچانا۔ بات تو بڑی سیدھی ہے جو ایک سوال کے جواب میں کہ موت سے ڈر لگتا ہے تو واصف علی واصف نے کہا تھا آپ موت کے قریب ہو جائیں۔ زندگی خوبصورت ہو تو موت سہیلی کی طرح ہوتی ہے۔ میں بالکل بھی فلسفہ بیان نہیں کر رہا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ موت مسیحائی بھی کرتی ہے کہ کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ۔ وہ لوگ جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں۔ اپنے لئے تو جانور بھی تردد کرتے ہیں تبھی تو خدمت سے خدا ملتا ہے۔ ظاہر خدمت کی خدا کو تو ضرورت نہیں اس کے بندوں کو ہے۔ یہ توعلامتی بات ہے کہ اللہ کو قرض دو۔ وہ کس کس روپ میں آپ کے پاس آئے گا۔ ضرورت مند ہو‘ بھوکا ہو‘ قیدی ہو قرضدار ہو لاچار یا یتیم ہو۔ یہ سب خیر کے عمل ہیں۔ وہی بات کہ بندوں سے یعنی اس کے بندوں سے محبت۔ کل میں ایک بزرگ کی بات بہت دھیان سے سن رہا تھا کہ اللہ اپنے بندوں سے بات کرتا ہے اور جو خود کو اللہ کے بندے سمجھتے ہیں تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ یہ احساس بھی کتنا راحت آفریں اور روح افزا ہے کہ انسان کا یہ تصور اور گمان یقین میں ڈھل جائے کہ وہ اپنے بندے سے مخاطب ہے اور یہ بھی کہ میں اپنے اللہ کا بندہ ہوں یہ جو اپنائیت اور اُنسیت ہے۔ میرا بندہ میرا اللہ: کیا بتائوں کہ بندگی کیا ہے میں نے خود اپنا احترام کیا تو بزرگ فرما رہے تھے کہ وہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ خرچ کروںمیرے رستے میں اور صرف اتنا نہیں کہا اپنے بندے کو اشارہ بھی دیدیا بتا بھی دیا۔ اسے سمجھ آ جانی چاہیے صرف خرچ کرنے کو نہیں کہا بلکہ کہا کہ جو اس نے انہیں عطا کیا ہے سبحان اللہ یہ اس کی عطا کا شکرانہ بھی تو ہے اشفاق احمد بھی کہا کرتے تھے کہ آپ نے کون سا اپنی جیب سے دینا ہے اسی کے دیے ہوئے میں سے دینا ہے۔ وہی جو غالب نے انسان کی سب سے بڑی متاع کے بارے میں کہا تھا: جان دی ‘دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا یہ جو مشکل وقت ہے یہ وبا ہمارا امتحان ہے یہ موقع ہے اللہ کو راضی کرنے کا ابھی مجھے فائونٹین ہائوس سے زکوٰۃ کے لئے فون آیا تو میں نے کہا کسی کو بھیجیں اور منگوا لیں۔الخدمت والوں کو میں پہلے بھی ضرورت مندوں کے لئے زکوٰۃ سے علیحدہ اعانت دے چکا ہوں۔ میری بیگم زیادہ متفکر ہے کہ جلداز جلد ان مشکل میں پھنسے ہوئے لوگوں تک پیسے بھیجیں۔ وہ بھی الخدمت پر یقین کرتی ہے یا پھر شوکت خانم پر۔ انشاء اللہ ہم اخوت کے امجد ثاقب صاحب سے بھی رابطہ کریں گے۔اللہ گواہ یہ دکھاوا نہیں‘ یہ سب اللہ کی رضا کے لئے ہے وہی جو اللہ نے اپنے پیارے بندوں کا ذکر کیا کہ وہ کوئی اللہ پر احسان نہیں چڑھاتے بلکہ اللہ کی رضا تلاش کرتے ہیں۔ نام و نمود سے ماورا‘ خالصتاً اللہ کے لئے۔ سراج الحق نے درست کہا کہ حکومت ٹائیگرز نہیں رضا کار چنے۔ ٹائیگرز تو شکار کرتے ہیں۔ رضا کار اللہ کے سپاہی بنیں گے اور لوگوں کے خدمت گزار۔ سچی بات ہے کہ مجھے چودھری پرویز الٰہی اچھے لگے کہ انہوں نے دو کروڑ اور ساٹھ لاکھ روپے وبا کے خلاف فنڈ میں دیے۔ باقی سیاستدان صرف مشورے ہی دے رہے ہیں۔ سب زبانی جمع خرچ ہے۔ یہ لوگ کروڑوں دے سکتے ہیں۔ عمران خاں بھی صرف خوش نما وعدے اور اعلان کی حد تک نہ رہیں۔ راشن لوگوں تک پہنچتا نظر آئے ۔ پیشہ ور فقیروں سے بھی بچنا ہے اور سفید پوشوں تک پہنچنا ہے جو ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ اب ہو کیا رہا ہے۔ اتفاق سے ایک پروگرام حامد میر کا میں نے دیکھا جس میں نوید شبلی اور احسن اقبال نے حصہ لیا۔ اس میں بتایا کہ اس وبا سے بچنے کے لئے ہاتھ کیسے دھونے ہیں۔ ہاتھ دھو کر شیری رحمن نے بتائے یا دکھائے۔ یہ میں نہیں دیکھ سکا۔ تاہم اس پر نوید شبلی اور احسن اقبال کی گفتگو میں نے سنی جس پر حامد میر نے کہا کہ چلو ہاتھ دھونے پر تو حکومتی اور اپوزیشن کے لوگ متفق ہوئے۔ ویسے میں سوچتا ہوں کہ یہ جو اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ عمران خاں ان کے ساتھ نہیں بیٹھ رہے اس کے معنی کیا ہیں۔ پہلے دونوں اطراف یہ تو بتائیں کہ آپ نے اپنی ذاتی سطح پر کیا کیا۔ کیا مدد کی ۔کیا آپ اپنی بڑی بڑی جگہیں قرنطینہ یا آئسو لیشن کے لئے مہیا نہیں کر سکتے۔ یاصرف سیاست کر سکتے ہیں۔ اپنے دوست علی ظہیر منہاس کے مصرع میں تصرف کروں تو لکھوں۔ کی سیاست تو محبت کا چلن چھوڑ دیا۔ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ روز نئے نئے اعلانات ضرور ہو رہے ہیں۔بے روزگاروں کو یکمشت 12ہزار دینے کا فیصلہ 1200ارب کا ریلیف پیکیج۔ساتھ ہی وزیر اعظم صاحب پتہ نہیں کس سے پوچھ رہے ہیں کہ آٹے کی قلت کون پیدا کر رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ قابل قبول نہیں۔ چلیے چھوڑیے آپ غریبوں کی مدد کی جائے۔ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور ان کو بھی دیکھ لے گا جو وقت گزار رہے ہیں۔ آخری بات انتہائی خوشی کی کعبہ کا طواف شروع ہو گیا ہے انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔اس موقع پر مجھے کیا شعر یاد آگیا: یہ طواف کعبہ رفتم بہ حرم رہم نداندد کہ بیرون درچہ کر دی کہ درون خانہ آئی میں کعبہ کے طواف کو گیا تو مجھے اندر جانے کا راستہ نہ ملا۔ اندر سے آواز آئی کہ تو اندر کیوں آنا چاہتا ہے۔ تو باہر کون سا ایسا کام کرکے آیا ہے کہ اس قابل ہے کہ تجھے آنے دیا جائے۔ واہ واہ