وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے متعلق وزیر اعظم مسلم سربراہوں کو خط لکھیں گے تاکہ مغربی ریاستوں کو مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ روکنے کا کہا جا سکے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ فرانس میں خاکوں کے حوالے سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔اگر ہولو کاسٹ کے متعلق مواد کی تشہیر کو روکا جا سکتا ہے تو اسلام کے خلاف توہین آمیز مواد پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ وزیر خارجہ نے آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلامو فوبیا کا معاملہ اٹھائے‘ اس ضمن میں نائیجر میں او آئی سی کی وزراء خارجہ کونسل کے اجلاس میں ایک متفقہ قرار داد لانے کی کوشش کی جائے گی۔ فرانس میں مسلمانوں اور ان کے عقاید کے خلاف نفرت پھیلانے والے گروہوں کے سیاسی مفادات ہیں‘وہ 60لاکھ کے قریب مسلمان شہریوں کی سوچ کو فرانس کی اکثریتی آبادی کے نظریات کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ انتہا پسند اسلام مخالف گروہ اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ مسلمان اظہار رائے کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ایسی ہی بے روک ٹوک آزادی کے علمبردار ایک سکول ٹیچر نے جب طلبا کو خاکوں کے متعلق گمراہ کن نکتہ نظر سے آگاہ کیا تو طالب علم نے اس کو ایسا کہنے سے روکا۔ ٹیچر نے طالب علم کے مذہبی جذبات کو نظرانداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ نتیجے کے طور پر اسے سکول کے قریب قتل کر دیا گیا۔ فرانس میں آزادی اظہار کے حامیوں نے یکطرفہ طور پر سوچ رکھا ہے کہ صرف ان کو اظہار کی آزادی ہے‘ دوسروں کے جذبات اور دل آزاری سے متعلق ان کی آزادی کسی اخلاقی اور قانونی ضابطے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ آزادی اظہار کے حق کو مسلمان تسلیم کرتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں اسے اہم حیثیت دی گئی ہے۔ لیکن اس حق کی آڑ میں کسی گروہ کو چھوٹ نہیں دی جا سکتی کہ وہ دوسرے گروہ ،برادری یا قوم کے جذبات مجروح کرے۔ ٹیچر کے قتل کے بعد فرانس کی حکومت اور خاص طور پر صدر میکغوں نے جو اقدامات کئے وہ کسی طور پر صدیوں سے شائستگی ‘ فنون لطیفہ‘ سیاسی اصولوں اور سماجی اقدار میں بہتری کے لئے جدوجہد کرنے والی قوم کی شناخت سے ہم آہنگ نہیں۔حکومت اور سربراہ حکومت نفرت‘ تعصب اور کشیدگی کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئندہ برس فرانس میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات کے لئے دائیں بازو کی جماعتوں نے اینٹی امیگرانٹس اور اینٹی مسلم ایجنڈا ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔ صدر میکغوں کی جانب سے دانستہ طور پر معاملے پر اشتعال انگیز بیانات اسی الیکشن مہم کا اثر ہے۔ ستمبر 2019ء میں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایک بھر پور خطاب کیا۔ اس تقریر میں تنازعہ کشمیر اور بھارت کے جابرانہ طرز عمل پر بات کرنے کے ساتھ مغربی ممالک میں خاکوں اور حجاب کے معاملات پر مسلم مخالف سوچ کی طرف توجہ دلائی گئی۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ انتہا پسندی اور تشدد کا سلسلہ مسلمانوں کی دل آزاری سے شروع ہوتا ہے۔ اگر مغربی معاشرے اپنے ہاں شہری آزادیوں کو نفرت اور تعصب سے پاک کرنے پر دھیان دیں تو دنیا کو لپیٹ میں لیتی کشیدگی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے یہ خدشات بے جا نہیں۔ آسٹریلیا‘ فرانس اور امریکہ میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں‘مسلم خواتین کو سرعام پریشان کیا جاتا ہے‘ ان کا حجاب کھینچا جاتا ہے‘ گزشتہ دنوں ایک یورپی ملک کی رکن پارلیمنٹ نے مسلمان خاتون کی شکایت سننے سے اس لئے انکار کر دیا کہ اس نے حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ یہ سب مایوس کن ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا آگے بڑھنے کی بجائے پسماندگی‘ عدم برداشت اور وحشت کی طرف رواں دواں ہے۔ مسلمانان عالم کی عالمی سطح پر تنظیمی شکل او آئی سی ہے۔ عرب لیگ‘ خلیج تعاون کونسل وغیرہ جیسی تنظیمیں بھی ہیں۔ عالمی جی ڈی پی میں مسلمان ریاستوں کا حصہ 27ہزار 949ارب ڈالر ہے۔ مسلمان ریاستوں کی تعداد 57اور مجموعی آبادی پونے دو ارب کے لگ بھگ ہے۔ توانائی‘ زراعت اور افرادی قوت مسلمان ریاستوں کی دولت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود رسول کریمؐ کی ذات پاک کو نشانہ بنائے جانے پر رسمی بیانات اور اقدام باعث شرم ہیں۔ ترکی اور پاکستان نے جس صاف لہجے میں فرانس کے صدر کو راہ راست پر آنے کا کہا ہے ایسا دوسرے مسلمان ممالک کیوں نہیں کہہ پا رہے۔ ایران اور سعودی عرب نے فرانسیسی حکومت کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام نے اپنی حکومت سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے‘ کویت نے اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے پر تنقید کی ہے۔ قطر نے فرانسیسی سامان کو دکانوں سے ہٹا دیا ہے۔ اردن نے براہ راست صدر میکغوں پر تنقید نہیں کی لیکن خاکوں کی اشاعت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے خاکوں کی اشاعت کو انتہا پسندانہ روش قرار دے کر مذمت کی ہے۔ مسلمانوں کو بطور امہ اپنے عقاید اور مقدس شخصیات کے دفاع میں عملی اقدامات کرنا ہوںگے۔دنیا بھر کے مسلمان مغربی معاشروں میں مسلم مخالف سوچ انسداد چاہتے ہیں۔ او آئی سی نے آج تک امہ کے کسی اجتماعی مفاد کا تحفظ نہیں کیا۔ اب معاملہ رسول کریمؐ کی حرمت کا آ گیا ہے۔ اس پر خاموش رہنا ناقابل معافی جرم ہو گا، او آئی سی موثر آواز نہیں اٹھا سکتی تو اس کا تحلیل ہو جانا بہتر ہو گا۔