جسٹس منیر احمد پاکستانی تاریخ کا ایک ایسا متنازعہ کردار ہے جسے اپنے اس فیصلے کی بنیاد پر طعن و تشنع کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو اس نے سکندر مرزا کے مارشل لاء کو بحثیت چیف جسٹس پاکستان جائز قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے‘‘۔ اس نے یہ فیصلہ 27اکتوبر 1958ء کو صبح کے وقت سنایا اور اس کے بتائے ہوئے اسی اصول کا سہارا لیتے ہوئے سکندر مرزا کے وزیر دفاع اور افواجِ پاکستان کے کمانڈر ان چیف ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو راتوں رات ایوانِ صدارت سے نکالا اور کرسیٔ صدارت کو فتح کر لیااور یوں وہ جسٹس منیر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب ایک ’’جائز حکمران‘‘ تھا۔اس طرح کے فیصلوں سے عدلیہ کی تاریخ بھری پڑی ہے، مگر جسٹس منیر کا اعزاز یہ ہے کہ اس نے اس ’’بدعت‘‘ کا آغاز کیا۔ لیکن پاکستان کا سیکولر اور لبرل طبقہ اس کی دو تصانیف کی بنیاد پر اسکی بہت عزت کرتا ہے۔ ایک تصنیف اس نے سرکاری حیثیت میں بحثیت چیف جسٹس پاکستان تحریر کی۔ اسے مشہور عام ’’منیر انکوائری کمیشن رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے، جو 1954ء میں حکومتِ پاکستان کو پیش کی گئی۔ یہ انکوائری کمیشن جسٹس منیر کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ وہ قادیانیوں کے خلاف چلنے والی 1953ء کی تحریک کے مضمرات کا جائزہ لے کر ایک مفصل رپورٹ مرتب کرے۔ یہ رپورٹ کتاب کی صورت بار بار چھپ چکی ہے۔ اس لیے کہ اس رپورٹ میں جسٹس منیر نے اسلامی ریاست، مسلمان، جمہوریت، اقلیتوں کے حقوق اور ارتداد جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔ یہ رپورٹ قادیانیوں کی محبوب ترین دستاویزات میں سے ایک ہے۔ پانچ سال قبل 2015ء میں جب میں بھارت کے سفر کے دوران اچانک ’’قادیان‘‘ چلا گیا تو مجھے قادیانیوں کے چیف مبلغ حمید کوثر نے سارا علاقہ گھمایا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھ سے میرا کیمرہ اور موبائل لے لیا گیا تاکہ میں کوئی تصویری ثبوت نہ لے سکوں۔ اس دورے کے دوران ان کے پرنٹنگ پریس سے ملحقہ کتب کے سٹور میں منیر رپورٹ بے شمار تعداد میں چھپی ہوئی موجود تھی۔ سیکولرحضرات بھی اس رپورٹ کو اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ اس میں جسٹس منیر نے پاکستان کے علمائے کرام کو غلط ثابت کرنے اور پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قائداعظمؒ کو سیکولر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جسٹس منیر کی دوسری تصنیف 1979ء میں شائع ہوئی جس کا نام تھا ’’جناح سے ضیاء تک‘‘ (From Jinah to Zia)۔ جسٹس منیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تخلیق پاکستان کے بعد وہ پہلا شخص تھا جس نے ببانگ دہل قائد اعظمؒ کو سیکولر کہنا اور ثابت کرنا شروع کیا تھا۔ اس کی رپورٹ اور کتاب دونوں میں قائد اعظمؒکی تقریروں کے کچھ حوالے تھے جنہیں سیکولر معانی پہنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ آج بھی میرے ملک کا سیکولر طبقہ ان دونوں تصنیفات کو دلیل کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ آج سے تقریباً 20سال قبل برطانیہ میں مقیم جناب فضل کریم فضلی کی صاحبزادی سلینہ کریم نے جسٹس منیر کی اس رپورٹ میں موجود قائد اعظمؒ کے ارشادات اور انٹرویوز کے حوالوں کو جب قائد کی دیگر ننانوے فیصد تقریروں اور انکے خیالات سے یکسر متصادم پایا، تو اس نے تحقیق شروع کی کہ کیا واقعی قائد نے ایسا کہا تھا یا نہیں،اور اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چیف جسٹس پاکستان کی مسند پر بیٹھا ایک شخص اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظمؒ کوسیکولر ثابت کرنے کے لیے، ان کے اصل بیان یا انٹرویو میں تبدیلیاں کر کے بددیانتی کے ساتھ انہیں اپنے مطالب کے لیے ڈھال بھی سکتا ہے۔ اپنی اس تحقیق کو وہ 2005ء میں "Secular Jinnah: Munir's Big Hoax Exposed" (سیکولر جناح: منیر کے بڑے فریب کا پردہ فاش) کے نام سے سامنے لے کر آئی۔ اتنی بڑی بدیانتی سلینہ کریم کے لیے بہت حیران کن تھی اور دیگر پڑھنے والوں کے لیے بھی اچھنبے کا باعث تھی۔ کوئی ایک چیف جسٹس سے یہ توقع بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کرسیٔ عدل پر بیٹھا ہوا یہ شخص، جس کا کام ہی جھوٹے اور سچے بیانات میں تمیز کرنا ہوتا ہے، وہ اپنی جانب سے قائد اعظمؒ کے بیانات میں تحریف کرے گا۔ سلینہ کریم نے اس کے بعد اپنے کام کا دائرہ کار بڑھایا اور 2010ء میں اپنی کتاب ــ"Secular Jinah & Pakistan"(سیکولر جناح اور پاکستان) لے کر آگئی۔ اس کتاب کا ضمنی ٹائٹل ہے ’’جو قوم نہیں جانتی‘‘ (What The Nation Doesn't Know)۔ سلینہ کریم کی تحقیق کے مطابق پہلی بدیانتی جس کی بنیاد پر آگے چل کر پورے ’’تصورِ پاکستان‘‘ اور قائد اعظمؒکی شخصیت کو سیکولرازم کے تصور سے آلود کیا گیا، وہ منیر رپورٹ میں قائداعظمؒ کا ’’رائٹرز‘کو دیا گیا ایک انٹرویو تھا، جسے تصورِ پاکستان کی بنیاد بنایا گیا۔ منیر انکوائری کمیشن کے الفاظ ہیں "Before the partition, the first public picture of Pakistan that the Quaid-i-Azam gave to the world was in the course of an interview in New Dehli with Mr. Doon Campbell, Reuter`s Correspondent. The Quaid-i-Azam said that the new State would be a modern democratic State, with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regardless of their religion, caste or creed." ترجمہ :(تقسیم سے پہلے قائد اعظمؒ نے پاکستان کا جوپہلا واضح نقشہ عوام کے سامنے پیش کیا، وہ اس انٹرویو کے دوران پیش کیا جو انہوں نے نیو دلّی میں ’’رائٹرز‘‘ کے نمائندے ڈون کیمبل کو دیا تھا۔ قائد اعظمؒ نے کہا کہ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی ،جس کا اقتدارِ اعلیٰ عوام کے پاس ہوگا جس میں تمام شہری بلا شرکتِ مذہب، رنگ و نسل یکساں شریک ہوں گے)۔ قائد اعظمؒ کے اس طرح کے انٹرویو کو بنیاد بنا کر جسٹس منیر احمد نے اسے گیارہ اگست کی تقریر کے ساتھ ملایا اور رپورٹ میں ایک تین نکاتی بیانیہ مرتب کیا۔ 1)۔ قائد اعظمؒ کے رائٹرزکو دیئے گئے انٹرویو کے مطابق انہوں نے واضح کیا ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہوں گے، اس لیئے قرار دادِ پاکستان میں جو یہ درج ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ سبحان و تعالیٰ ہے، یہ قائداعظمؒ کے اصولوں سے انحراف ہے۔2)۔ قائد اعظمؒ کی قانون ساز اسمبلی کے سامنے گیارہ اگست کی تقریر ایک سیکولر ریاست کا خاکہ پیش کرتی ہے جس میں مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔3)۔ قائداعظمؒ کی ایک تقریر کے حوالے سے تیسرا نکتہ لیا گیا تھا کہ پاکستان ایک تھیوکریسی (مذہبی حکومت)نہیں ہوگی۔ سلینہ کریم نے جسٹس منیر کی رپورٹ کے اس سارے بیانیے کی بنیاد، یعنی رائٹرز کے اس انٹرویو کی اصل دستاویز کی تلاش شروع کی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پورے کا پوراانٹرویو ہی جسٹس منیر نے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔ سلینہ کے بقول میرے دماغ میں یہ بات شروع دن سے اس لیے کھٹک رہی تھی کہ اس میں انگریزی گرائمر کی بے شمار غلطیاں ایسی غلطیاں تھیں، جو ایک برطانوی انگریز صحافی سے متوقع نہیں ہوتیںاور دوسری بات یہ کہ جسٹس منیر نے جان بوجھ کر اس انٹرویو کی اشاعت کی تاریخ نہیں لکھی تھی تاکہ بعد میں آنے والے محققین اس کی اصل عبارت تک فوراً نہ پہنچ سکیں۔ لیکن سلینہ کریم کی لگن اسے اصل انٹرویو تک لے گئی۔ (جاری ہے)