گزشتہ دو ہفتے لاہور میں بھرپور ادبی گہما گہمی رہی‘دو بڑے فیسٹیولز نے لاہور اور پاکستان کی ادبی فضا کو سازگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان ادبی میلوں کو جہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے‘وہاں ایک طبقہ ایسابھی ہے جس نے ان ادبی میلوں اور مشاعروںکو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور تنقید کی وجہ کچھ نئی نہیں۔ اس طرح کی ادبی تقریبات کا مقصد سماج میں سنجیدہ قاری پیدا کرنا ہوتاہے ۔ایک لحاظ سے ناقدین کی یہ رائے جائز ہے کہ ایک عرصے سے سرکاری کانفرنسیں اور میلے صرف تعلقات بنانے کا کام کر رہے ہیں‘جہاں ان میلوں کی انتظامیہ طے شدہ ہے‘ وہاں مندوبین کی فہرست بھی عرصہ دراز سے تبدیل نہیں ہوئی‘دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری سرکارقومی خزانے سے کروڑوں روپے لگا کر بھی نیا قاری پیدا کر سکی اور نہ ہی کسی نئی بحث کو جنم دے سک۔من پسند ادیبوں کو نوازنے کا عمل ایک عرصے سے جاری ہے ۔گزشتہ ادبی میلوں میں بھی معاملہ کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھا۔ ‘کس کانفرنس یا فیسٹیول میں کون مدعو ہوتا ہے اور کون مدعو ’’کروایا‘‘جاتا ہے‘یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی‘لہٰذا مدعو ہونے یا مدعو کروانے کے اس عمل پر اعتراض یا تنقید نہیں بنتی۔ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ادبی تقریبات اور کانفرنسوں سے ہم اپنے طور پر کس سطح کا ادبی کام کر رہے ہیں‘یقین جانیں کسی زمانے میں ہم ادبی کانفرنسوں اورمیلوں میں بہت اشتیاق سے شریک ہوتے تھے‘مختلف سیشنز میں ہونے والی گفتگوئوں کا ایک معیار تھا مگر اب تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شاعرگزشتہ دس سال سے ایک ہی طرح کی شاعری کر رہاہے اور ہر سال اسے کانفرنس میںبلایا بھی جا رہا ہے۔کسی دوست یا انتظامیہ نے آج تک اتنا پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ جناب یہ باتیں تو آپ گزشتہ کئی کانفرنسوں میں کر چکے ہیں‘آپ یہ تو بتائیں کہ گزشتہ ایک برس میں آپ نے نیا کیا پڑھا اور نیا کیا بتانا چاہتے ہیں ؟ مشاعروں کے نام پر پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے‘وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ شعر کا سنجیدہ قاری یہاں بھی ذہنی اذیت سے گزر رہا ہے یعنی مشاعرے اور سیاسی جلسے میں تفریق ختم ہو چکی۔سیاسی جلسوں یا اسٹیجوں پر جو کام ہمارے سیاسی اداکار یا مسخرے کر رہے ہیں‘وہی کام قومی مشاعروں میں آج کا شاعر کر رہا ہے‘پھر خود ہی بتایئے کہ ہم نے مشاعرے کی تہذیب کو نقصان نہیںپہنچایا؟مشاعروں کا مقصد تو نئی نسل کو شعر سے جوڑنا تھا‘شعر کا نیا قاری پیدا کرنا تھا مگر یہاں معاملہ الٹ ہو گیا‘ سنجیدہ قاری پیدا ہوا یا نہیں ‘ایک نئی طرز کا قاری ضرور پیدا ہوا جس نے شعر کی روایت کو رکشوں اور ٹرکوں کی شاعری سے جوڑ دیا اور اس کا نقصان کیا ہوا‘شاید قومی کانفرنسوں یا مشاعروں کی انتظامیہ کبھی نہ سمجھ سکے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سال میں پاکستان بھر میں ہونے والے ادبی میلوں اور مغربی اداروں کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے فیسٹیولز کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ادب کو کارپوریٹ سیکٹر میں جگہ دینے کے ساتھ ساتھ اسے سنجیدہ قاری کی گرفت سے دور کر دیا۔ایک شخص مشاعرے کا قومی کانفرنس میں شرکت کی شرط رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا نہ ہوا تو ورنہ میری طرف سے بھی معذرت‘انتظامیہ سوچے سمجھے بغیر اس بلیک میلنگ کا حصہ بن جاتی ہے اور یوں بیٹھے بٹھائے ادبی کانفرنس یا میلہ ایک اسٹیج ڈرامہ بن جاتا ہے۔ میں ادبی تقریبات اور مشاعروں کی مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ لکھتا ہوں‘انتظامیہ اس لیے بھی میرے خلاف رہی کہ میں ’زہرِ ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند‘۔میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں سرکاری خرچے پر ہونے والی تقریبات کے بارے ایک طالب علمانہ رائے پیش کی تھی کہ ہمیں ایک ایسی کمیٹی ترتیب دینی چاہیے جو غیر جانبدار ہو اورکسی بھی طرح کی بلیک میلنگ میں نہ آنے والی ہو۔وہ کمیٹی مندوبین کی فہرست مرتب کرے اور اس فہرست میں بیس سے پچیس فیصد سینئرز رکھے جائیں اور باقی نئے قلم کار مدعو ہوں‘مختلف موضوعات پر ہونے والے قومی سیشنز میں نئے لوگ بات کریں‘وہ اپنے مسائل بتائیں اور ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔جامعات سے وابستہ نوجوان اسکالرز اور دیگر اداروں میں بیٹھے نئے قلم کار بھی اتنا ہی حق رکھتے ہیں‘جتنا ہمارے سینئرز جو نصف صدی سے ادبی میلوں میں اپنے ’’گراں قدر‘‘ نظریات پیش کر رہے ہیں۔ اگر ہم نئے لوگوں کو مدعو نہیں کریں گے‘ان کی بات نہیں سنیں گے اور انھیں موقع نہیں دیں گے کہ وہ سرکاری سطح پر ہونے والی تقریبات میں اپنی تجازویز یا خیالات پیش کریں تو ہم نوجوانوں سے کیسے امید یںباندھ سکتے ہیں۔اگر ادبی تقریبات میں بھی موروثی سیاست چلنی ہے تو پھر سیاسی وڈیرے اور ادب میں فرق کیا رہ گیا۔پوری دنیا میں ریسرچ کانفرنسز کا طریقہ کار تبدیل ہو چکا‘کانفرنس کا عنوان مشتہر کیا جاتا ہے اور پوری دنیا کے اسکالرز کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا ملخص بھیجیں اور بتائیں کہ وہ کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں‘ایسے میں جہاں درجنوں نئے لوگ سامنے آتے ہیں‘وہ درجنوں نئے موضوعات بھی قومی سطح پر زیر بحث آتے ہیں جس سے سماج میں کم یا زیادہ‘تبدیلی ضرور آتی ہے۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں کی ریسرچ کانفرنسوں میں عرصہ دراز سے چند لوگ مدعو ہوتے ہیں اور وہی ملک کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ آج تک ہماری سیاسی تقدیر بدل سکی اور نہ ہی ادبی‘ہم نے ادبی میلوں‘کانفرنسوں فیسٹیولز کو سیاسی جلسوں پر برابر لا کھڑا کیا‘ہم نے موروثی سیاست دان اور موروثی دانشور پیدا کیے‘یہی وجہ ہے کہ ہم قوم بننے کی بجائے ایک ہجوم بن گئے۔