عید کے اگلے روز ٹیلی ویژن چینلز پر خوب ہلا گلا ہو رہا تھا۔ رمضان کے احترام میں جن خواتین نے حجاب کو شعار کر لیا تھا‘ گھونگھٹ نکالے نعتوں پر بلا سوچے سمجھے جھومتی رہتی تھیں وہ سب یکدم حجاب اور گھونگھٹ کے آپے سے باہر ہو گئیں۔ قدرے بیباک ہو گئیں اور اپنے ساتھی میزبانوں کے ساتھ خوب کھل کھیلیں کہ رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے‘دستور بھی ہے وغیرہ وغیرہ تو سکرین پر اس نوعیت کی دھماچوکڑی اور کھیل تماشے چل رہے تھے جب سکرین کے نیچے ایک پٹی چلنی شروع ہو گئی کہ معروف ترقی پسند ادیب ڈاکٹر انور سجاد انتقال کر گئے۔ مجھے یک دم دھچکا سا لگا کہ انور سجاد نے یہ کیا کیا۔ اتنی مدت سے بسترپر لاچار پڑا تھا۔ لاغر اتنا کہ کمرے میں داخل ہوتے تو پہلی نظر میں بستر خالی لگتا اور پھر رتی بھابھی بتاتی کہ ڈاکٹر صاحب آرام کر رہے ہیں۔ گویا موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بن آئے نہ رہے اور غالب کی آنکھ سے دیکھو تو: تپش سے میری وقف کش مکش ہر تار بستر ہے مرا سر رنج بالیں ہے میرا تن بار بستر ہے اور انور سجاد نقاہت سے آنکھ کھول کر ہمیں دیکھتا ہے۔ پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بے تابی سے ہر ایک تار بستر خار بستر ہے مجھے اس کی موت کی خبر پڑھ کر دھچکا تو لگا لیکن کچھ شکائت سی بھی ہوئی کہ بھائی انور سجاد تم نے ضرور عید کے اگلے روز ہی مرنا تھا ہماری خوشیوں کا ستیا ناس کرنا تھا۔ ایک دو روز اور ٹھہر جاتے تو تمہارا کیا بگڑتا۔ اتنے عرصے سے لاغر پڑے تھے تو پڑے رہتے کچھ دن اور۔ درست کہ موت کا ایک دن معین ہے لیکن تم اس دن کو ذرا آگے کر لیتے۔ فنا کی ہوائیں تو روز تمہاری کھوکھلی ہو چکی جڑوں کو اکھاڑنے کے درپے ہوتی تھیں۔ یہ تم ہی تھے جو ڈھیٹ بن گئے تھے۔ نہ اکھڑتے کچھ دن اور۔ تاکہ ہم کسی بھی رنج کے بغیر عید تو منا لیتے اور ہاں اگر مرنا ہی تھا اور مرنا تو تھا تو عید سے کچھ دن پہلے ہی مر جاتے۔ ہماری عید ضرور اکارت کرنی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مجھے تمہاری موت کی خبر پڑھ کر دھچکا کیوں لگا۔ اتنا دکھ کیوں ہوا کہ میرے پوتے طلحہ نے پوچھا کہ دادا آپ بیمار ہو۔ میں نے کہا نہیں تو۔ وہ کہنے لگا دادا آپ کی آواز عجیب سی ہے۔ دراصل دکھ میرے اندر گھر کر گیا تھا۔ موت چاہے وہ سوفیصد متوقع ہو تب بھی کبھی متوقع نہیں ہوتی۔ میں نے خود اپنے چھوٹے بھائی زبیر کو کینسر کی آخری سٹیج پر بستر پر تڑپتے دیکھا تو گڑ گڑا کر رو رو کر دعا مانگی کہ یااللہ اس کی مشکل آسان کر دے۔ اس کے امتحان ختم کر دے۔ اسے اٹھا لے۔ لیکن جب دو گھنٹے کے بعد میرے بیٹے نے کمرے میں داخل ہو کر کہا کہ ابو…آچو کی ڈیتھ ہو گئی ہے تو اس لفظ ڈیتھ نے مجھے مار ڈالا۔ میں ایک مرتے ہوئے مویشی کی مانند ڈکرانے لگا کہ چاہے موت کتنی بھی متوقع ہو پھر بھی کبھی متوقع نہیں ہوتی…میں دوبارہ تو انور سجاد کو دیکھنے نہ جا سکا البتہ میں کسی نہ کسی کے ذمے لگا دیتا کہ یار تم اس کا پتہ کر آئو…کبھی کامران اطلاع کر دیتا کہ ڈاکٹر صاحب کافی ٹھیک ہیں اور کبھی عرفان کھوسٹ فون کر دیتا کہ آج تو ڈاکٹر صاحب پرانے سٹیج ڈراموں کے ڈائیلاگ سناتے رہے۔ اس نے ٹھیک ہو جانا ہے۔ بھابھی رتی اس کی تیمار داری کرتے کرتے خود بیمار ہو گئی ہیں۔ کیسی وفا شعار اور جاں نثار بیوی ہے۔ تارڑ بھائی… تو میں بھول بھال گیا تھا کہ انور سجاد یکدم رخصت بھی ہو سکتا ہے۔ عجیب سرپرائز دی اس نے…ڈرامہ ہی کر دیا اوروہ بھی عید کے اگلے روز … میرا قطعی طور پر جی نہیں چاہ رہا تھا کہ میں اس کی موت کے بارے میں کچھ بھی لکھوں‘ اب بھی نہیں چاہ رہا لیکن مجبوری ہے کیا کروں اتنے زمانوں کا ساتھ رہا۔ سُکھ کے زمانوں کا بھی اور دُکھ کے زمانوں کا تو بہت۔ مجھے تو یہ محسوس ہو رہا ہے جیسے میں کسی مردہ خانے کے باہر ہی کھڑا رہتا ہوں اور اس کے اندر کچھ پیارے سرد خانے میں حنوط پڑے ہیں اور دربان بھی میری مسلسل موجودگی سے بیزار ہو چکا ہے… کبھی انتظار حسین سرد ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے عبداللہ حسین چلا جاتا ہے… ذرا سے وقفے کے بعد یوسفی صاحب ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور اب انور سجاد اپنے بستر سے غائب ہو جاتا ہے… دربان آج اس لئے بھی زیادہ بیزار ہے کہ اسے عید کے اگلے روز ہی ڈیوٹی پر آنا پڑا ہے… میں جیسے ایک اور روزنامچہ موت کا لکھنے کے لئے آ گیا ہوں اور بیزار تو میں بھی ہوں کہ یہ دکھ جھیلے نہیں جاتے… میں موت کے روزنامچے میں اور کیا لکھوں۔ یہی کہ انتظار حسین‘ عبداللہ حسین‘ یوسفی صاحب اور اب انور سجاد… بین الاقوامی معیار کی اردو نثر کا جہان تو اجڑ گیا۔ انور سجاد’’خوشیوں کے باغ‘‘ کی آخری بہار تھی۔ آخری خوش نوا‘ خوش آثار‘ خوش کمال آخری بلبل تھی جو نغمہ سنج ہوتی اور رخصت ہو گئی اور باغ اجڑ کے رہ گیا۔ ’سدا نہ باگیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں…بانکا اداکار۔ بے مثل ڈرامہ نگار۔ مصوری اور رقص کا بھیدی اردو میں جدید افسانے کا بانی جس کی تقلید کل جہان نے کی۔ کمال کی گفتاریاں اور حسن جمال ایسی یاریاں… ایک نہیں کئی ادیب بچھڑ گئے… اس کے آخری دنوں کے… کسمپرسی کے ملال جی کو جلاتے ہیں اور اس بسترکی ویرانی میں اسے پھر بھی اپنی عزت نفس کا خیال… کہاں وہ وسیع اور شاندار رہائش گاہ جہاں ہم اس کے مہمان ہوا کرتے تھے اور کہاں دوگز زمیں میں دو کمروں کا کرائے کا مکان کہ اس کے سرہانے بیٹھنے کے لئے کرسی کی جگہ بھی کم پڑ جاتی تھی اور پھر بھی لبوں پر نہ کوئی شکائت نہ گلا کچھ بھی زمانے سے۔ پرانے زمانوں کی طرح لب سکیڑ کر مسکراتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے۔ مستنصر آ جایا کرو… دوستوں کو دیکھ کر میرا حال اچھا ہو جاتا ہے۔ مجھے اب اکثر محسوس ہوتا ہے کہ دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے۔ تبھی تو ایک مرتبہ پھر مردہ خانے کے دروازے پر کھڑا ایک اور روزنامچہ لکھ رہا ہوں… دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالب واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں سونا سوگند ہو گیا ہے غالب