بھارتی فوج کاایک درندہ صفت اورخونخواربھیڑیا جنرل ایس پی سنہاخم ٹھونک کرنہایت بے شرمی کے ساتھ کشمیریوں کی عزت وعصمت پرہاتھ ڈالنے کی شرمناک ابلیسیت ، اور درندگی کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ،بھارتی فوج اوربھارتی حکمرانوں کے چہرے پررسوائی مل کرپوری دنیاکواپنی روسیاہی سے متعارف کروا دیا ہے آہ !وہ بھی کیا زمانہ تھااوروہ بھی مسلمان حکمران ہی تھے کہ جنہوں نے ایک مسلمان خاتون کی پکارپرراجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔یہ توہمارے ہی اسلاف تھے کہ جواپنے مسلمان بھائیوں کی مددکے لئے بالفعل سمندروں کے سینے چیرتے رہے، فلک بوس پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا،باد صرصراورآندھیوں کارخ پھیردیا۔ یہ ایمان کی جان کنی اورتغافل کیشی کاعالم ہی ہے کہ آج کی مسلمان ریاستیں مظلوم مسلمانوں کی صدائوں پراپنے کانوں میں سیسہ ٹھونس چکی ہیں اوراپنے بھائیوں کوغم واندو ہ ،مصیبتوں اورخطرات کے بیابانوں ،جبرکے طغیانیوں اوردرندوں کے نرغے میں پڑے دیکھ کربھی انکے چہروں پراضمحلال ،اضطراب کے بجائے اطمینان پایاجاتاہے۔یہی وہ بدترین بزدلی ہے کہ جوہماری آج کی مرتب شدہ تاریخ کے صفحات میں زیب عنوان بن رہی ہے۔ میراث میں آئی ہے انہیں مسندارشاد زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن بھارتی فوج کی طرف سے کشمیری خواتین سے جنسی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی شرمناک حکمت عملی بھارتی ٹی وی کے ٹاک شو میں بے نقاب ہوئی۔اس ناپاک منصوبے کا خود سابق میجر جنرل ایس پی سنہا نے انکشاف اور کہا کہ میں کشمیری خواتین کو جنسی زیادتی کانشانہ بنانے کی حمایت کرتا ہوں۔ انتقام لینے کیلئے کشمیر ی عورتوں کو ریپ ہونا چاہئے ۔ سابق بھارتی جنرل ایس پی سنہابی جے پی کاکارکن ہے۔ایس پی سنہا ایک لائیوٹی وی پروگرام میںکشمیری خواتین کی عصمت دری کودرست قراردینے سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں خواتین کیساتھ سلوک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں اس قسم کے لوگوں کو وسیع اختیارات دے کر انہیں چھوٹ دی گئی ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے کئی مرتبہ اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ سوشل میڈیاپرسابق بھارتی جنرل کے بیان کی دنیا بھر میں شدیدمذمت کی جارہی ہے اور لوگ اپنے غصے اور ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شیطان صفت بھارتی ریٹائرڈجنرل ایس پی سنہا کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ خواتین سے متعلق اس طرح کے گھنائونے عمل کی ترغیب دینے والے شخص پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے ۔ دوسری طرف بھارتی کی وزارت اطلاعات و نشریات نے مقبوضہ کشمیر میں کیبل آپریٹروں سے کہا کہ وہ الجزیرہ، ترکی، ملائیشیا ، ایران،سعودی عرب اورپاکستان کے چینلز کو وادی میں نشر نہ کریں۔واضح رہے کہ کشمیر میں الجزیرہ کے ساتھ ساتھ ایران کا پریس ٹی وی، ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی بھی دیکھا جاتا ہے۔جبکہ سعودیہ کے العربیہ چینل پربھی پابندی عائدکردی گئی ہے۔اس سے قبل بھارت نے پاکستانی ٹی وی چینلوں کی نشریات پر پابندی عائدکردی تھی جس کے بعد پاکستان کے نیوز چینل تو پوری طرح بند ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی اور ملائیشیا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا موقف واضح کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال پر احتجاج کیا، جس کے بعد بھارت سے ان ممالک کے ساتھ رشتوں میں تلخی بھی پیداہوئی۔ اتوار17نومبر2019 ء کو سری نگر میں سینئر انفارمیشن آفیسر وکرم سہائے نے محکمہ اطلاعات کے دفتر میں کیبل آپریٹرز کے ساتھ میٹنگ کی۔کیبل آپریٹروں کاکہناہے کہ انہیں کہاگیاکہ کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے لئے نام نہاد (Regulation) پر عمل کریں۔ بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات کے جوائنٹ سکریٹری وکرم سہائے نے کیبل آپریٹروں سے کہا کہ جو لوگ مسلم ممالک، خاص طور پر ایران، ترکی اور ملائیشیا کے چینلز نشر کر رہے ہیں وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں5 اگست 2019ء سے تادم تحریر109دن ہوئے مواصلات پر پابندیاں عائدہیں اورتا حال انٹرنیٹ پربھی پابندی عائد ہے۔ اس لیے لوگ انٹرنیٹ پر بھی دنیا کی خبروں سے بے خبر ہیں۔ دن بہ عالمی میڈیاکے حوالے سے بھارتی رویہ خطرناک حدوں کوچھورہاہے17نومبراتوارکوکشمیر کی صورتحال پر سوالات پوچھنے پر جرمن خاتون صحافی پر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے غصہ کیااوراس بابت مزید پوچھنے سے روکدیا۔ دہلی میں تعینات جرمن خاتون صحافی سے ایک انٹرویو کے دوران بھارتی وزیر خارجہ سبرامینیم جے شنکر انتہائی غصہ میں آگئے ۔اس کے باوجود جرمن اخبار کی نمائندہ خاتون صحافی لارا ہوف لنگرنے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بھارتی وزیرخارجہ سے انتہائی تیکھے سوالات جاری رکھے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے جرمن خاتون صحافی کو پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے مزید سوالات کرنے سے روک دیا ۔انہوں نے اپنے انٹرویو کے آغاز میں جے شنکر سے پوچھا کہ تین ماہ سے بھی زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جب کہ وہاں کے لوگ اب بھی دنیا سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔کیا اس کے باوجود بھارت اقدار کا پابند ہے؟ بھارتی وزیر خارجہ اس غیر متوقع سوال پر پہلے تو خاموش رہے اور پھر تلملا کر جواب دیتے ہوئے خاتون صحافی سے کہا کہ لگتاہے کہ کشمیرکے بنیادی مسائل کے حوالے سے ان کی(Understanding) کچھ مختلف ہے۔کشمیرسے متعلق جرمن صحافی کی طرف سے کئی سوالات پوچھے جانے پربھارتی وزیرخارجہ نے تلملا کر جواب دیا کہ مغربی پریس بلاوجہ ایسے الزامات لگا رہا ہے۔ انہوں نے غصے میں کہاکہ آخر آپ جیسے مغربی صحافیوں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا۔مغربی پریس کا رویہ غیر منصفانہ رہااور یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ درایں اثنا امریکی کانگریس کے نام لینٹس ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کمیشن نے کشمیری عوام کی مشکلات، طلبہ، تاجروں اور صحافیوں کو بھی درپیش مسائل سے دنیا کو آگاہ کرکے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا پول کھول دیا ہے جو دنیا کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنے کی پاکستان کی کوششوں کا بھی اعتراف ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان بھی ٹرمپ کی طرح رسمی پیشکشوں کی بجائے اخلاص نیت اور صدق دل سے کشمیریوں کی حمایت کرے تاکہ کشمیری عوام ایک طویل کرفیو سے چھٹکارا پا کر سکھ اور چین کی زندگی بسر کر سکیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت مسلسل اذیت جھیل رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے نام لینٹس ہیومن رائٹس کمیشن نے بھارتی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے پس منظرمیں موجود آمرانہ اور فوجی انتہاپسندانہ نظریات و خواہشات کو بے نقاب کیا ہے۔