عمران خان سے لاہور میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔کچھ چیزوں کے بارے میں تو وہ بہت پُراعتماد نظر آئے، مگر کہیں کہیں ان کے چہرے پر بے یقینی کے آثار واضح تھے۔ مثلا انہیں یقین ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی مگر دوسری طرف وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انتخابات ہوں گے کب ۔ انہیں یقین ہے کہ نئی اسٹیبلشمنٹ گذشتہ سے مختلف ہے مگر وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ نئی اسٹیبلشمنٹ موجودہ مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہیںیقین نہیں ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے نتیجے میں نوے دن میں الیکشن ہو جائیں گے لیکن انہیں یقین ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کے سوا کوئی حل بھی نہیں ۔عمران خان آج کل اسی امید و یاس کی کیفیت میں الجھے دکھائی دیتے ہیں ۔ عمران خان سب سے زیادہ معیشت کے بارے میں فکر مند نظر آئے۔انہیں لگتا ہے کہ جس قدر خرابی پچھلے آٹھ مہینے میں پیدا ہوئی اسے سدھارنا نئی حکومت کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ عمران خان کو یہ بھی لگتا ہے کہ معیشت کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس کی تلافی آسان نہیں اور یہ کہ پاکستان آٹھ مہینے میں کئی سال پیچھے چلا گیا ہے۔وہ بار بار کہتے ہیں کہ انہیں اقتدار سے نکالنے والوں نے ان کا بھلا ہی کیا ہے کہ انہیں پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے لیکن پاکستان کا بہت نقصان ہوا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کے اہم اداروں سے پاکستانیوں کا اعتبار کم ہوا ہے۔ نظام انصاف ،انویسٹی گیشن کے ادارے ،احتساب کے ادارے اور گھروں میں گھس کر عوام پر تشدد کرنے والی پولیس سبھی ایکسپوز ہوئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی معاشی حالت بہت پتلی ہو گئی ہے۔ کاروبار تباہ حال ہے۔ملک کے دیوالیہ ہونے کا شور اس سے پہلے اتنی شدت سے سنائی نہیں دیا۔ آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر کے لیے ہم ناک رگڑنے پر مجبور ہیں مگر ڈیڈ لاک ختم نہیں ہو رہا ۔ یہ صورتحال ہر پاکستانی کے لیے پریشانی کا باعث ہے ، عمران خان کے لیے کیوںنہیں ہو گی۔ اسمبلیاں توڑنے کو وہ اگلے انتخابات کے لیے ضروری عمل سمجھتے ہیں۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اتحادیوں اور پارٹی رہنمائوں نے بار بار ایک موقف دہرا کر عمران خان کے دل میں بھی تھوڑا سا وسوسہ پیدا کر دیا ہے۔ اگر نوے دن میں الیکشن نہ ہوئے تو کیا ہو گا۔ اب عمران خان کو یقین نہیں رہا کہ اسمبلیاں توڑنے کے بعد نوے دن میں الیکشن ہو جائیں گے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اگر تاخیر بھی ہو گئی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ نہ وفاقی حکومت کے ہاتھ میں کچھ ہے نہ صوبائی کے ہاتھ میں ہو گا۔لہذا اگر انتخابات تاخیر کا شکار ہو بھی گئے تو انتخابات میں انہیں زیادہ عوامی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے عمران خان نے فیصلہ کیا ہے پرویز الٰہی جلد سے جلد اعتماد کا ووٹ لیں گے اور اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کا کوئی رابطہ نہیں ۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ رابطے میں آنا چاہتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ انہیں یقین ہے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی کرنا ہے۔ انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپریل میں الیکشن کرا دے گی۔صدر عارف علوی اور اسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی متعدد ملاقاتیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں۔ عمران خان نے انتخابات کے لیے سیاسی قوتوں سے بھی رابطہ کر کے دیکھ لیا ،کچھ حاصل نہ ہوا، اب ان کا یقین اور گہرا ہو گیا ہے کہ پاکستان میں قبل از وقت انتخابات میں لے جانے والی قوت اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ عمران خان ایک اور مخمصے کا بھی شکار ہیں ۔ انہیں اس بات کا تو یقین ہے کہ پرویز الٰہی ان کی مخالفت میں جا کر اپنا سیاسی نقصان نہیں کریں گے اور بادل نخواستہ ہی صحیح عمران خان کے کہنے پر اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ لیکن آئندہ انتخابات میں انہیں کتنی سیٹیں دینی ہیں ،اگلے پانچ سال میں ق لیگ کے گروپ کو کتنا مضبوط رکھنا ہے اور جواب میں ق لیگ تحریک انصاف کے ساتھ کتنا وفا دار رہے گی ، اس حوالے سے عمران خان بہت زیادہ پُر اعتماد دکھائی نہیں دیتے ۔ وہ اعتماد سے نہیں کہہ سکتے کہ ق لیگ کا اتحاد ان کے فائدے میں ہے اور وہ ہمیشہ ان کے ساتھ چلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ بہت محتاط دکھائی دیتے ہیں ۔ اس بار تو انہوں نے کہہ دیا کہ اچھا بیٹسمین ہر گیند کو نہیں کھیلتا اور یہ کہہ کر پرویز الٰہی سے مستتقبل میں تعلقات کی نوعیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کو ’’ویل لیفٹ ‘‘ کر دیا۔ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اب بھی عمران خان کی گفتگو کے مرکزی کردار ہی ہوتے ہیں۔ عمران خان کو اب لگتاہے کہ جنرل باجوہ پہلے ہی دن سے انہیں دھوکہ دے رہے تھے مگر تب انہیں معلوم نہ تھا۔ عمران خان کو لگتا تھا کہ جنرل باجوہ آخری دن تک بھی انہیں دھوکہ دیتے رہے جب وہ عارف علوی کے ساتھ ملاقاتوں میں انتخابات کرانے کا تاثر دے رہے تھے۔ تبھی تو عمران خان نے پورا اکتوبر لانگ مارچ کا کہہ کہہ کر گزار دیا اور لانگ مارچ نہ کیا ۔جب انہیں سمجھ آئی تو دیر ہو چکی تھی اور جنرل باجوہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کی تمام کوششیں ہار کر گھر جا رہے تھے۔ اب عمران خان کے پاس چارہ نہ تھا کہ نئے چیف کو وقت دیں اور اپنی امیدوں کا محور انہیں بنا لیں ، یہی انہوں نے کیا۔ عمران خان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے پچھلے ایک سال میں جو کچھ کیا ہے ،کیا اس کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہوں گے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی ایک حقیقت ہے ایسے ہی اب تحریک انصاف بھی پاکستان کی حقیقت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو حقیقت تسلیم کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ امید و یاس کی کیفیت میں الجھے عمران خان اپنے کارڈز اعتماد کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ انہیں اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ کچھ الجھنیں ضرور ہیں جو روز ان کا دامن پکڑ کر کھینچتی ہیں مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اچھے دنوں کے لیے پُر امید دکھائی دیتے ہیں۔