یہ تو حد ہو گئی نا! کہتے ہیں حمد اللہ نام کا یہ شخص پاکستانی نہیں ہے۔ غیر ملکی ہے۔ جو سینیٹر ہے۔ وزیر رہ چکا ہے ۔ پاکستان کے عوام نے اسے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے اور منتخب لوگوں نے بھی اسے اپنی نمائندگی کا سزا وار سمجھا ہے۔ ہمارے تمام اداروں نے اس کی سکروٹنی کی ہے۔ صرف الیکشن کمشن ہی نے نہیں‘ اس ادارے نے بھی جو پاکستانی شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرتا ہے انہیں پاکستانی ہونے کی شناخت دیتا ہے اور کیسا ہوتا ہے پاکستانی۔ ذرا یہ بھی بتائو وہ غیر ملکی ہے تو اس کا تعلق کس ملک سے ہے۔ اس سوال کے جواب سے چند بہت ہی نازک بحثیں کھل جائیں گی جو آپ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں گی۔ یہ کیا ہو گیا پاکستان کی مقتدرہ کو ان کو کوئی بات سمجھ کیوں نہیںآتی۔ میں نے اس طرح ملک تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ خدا کا خوف کرو اور عقل کے ناخن لو۔ پہلے ہم غدار قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کچھ بھی نہیں ہوا۔ مادر ملت تک پر یہ تہمت لگائی۔ انڈیا کا ایجنٹ قرار دینا معمولی بات تھی‘ سہروردی ‘ لیاقت علی خاں تک اس کے ڈانڈے جا ملتے ہیں۔ ہم نے اس چکر میں ملک توڑ ڈالا۔ اب تو ہم ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں۔ غدار کا مطلب تو یہ ہے کہ ہے تو پاکستانی‘ مگر پاکستان کا وفادار نہیں۔ بہت بڑا گناہ ہے مگر ہم کبھی کسی کو غیر ملکی قرار دینے کا گھنائونا جرم نہیں کیا کرتے تھے۔ اس بار تو حد ہو گئی ہم نے ایک شخص کو غیر ملکی قرار دے دیا اور بیٹھے ہنس رہے ہیں۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ ارے بھائی‘ ایسی باتوں سے عرش کے کنگرے ہل جاتے ہیں۔ زمین کی چولیں ڈھیلی ہو جاتی ہیں۔ میاں ‘ ہوش کے ناخن لو‘ یہ کیا کر رہے ہو۔ اب یہ بحث چھڑ گئی ہے تو ذرا طے کر لو کہ پاکستانی ہونے کی شرائط کیا ہیں۔ میں نے کراچی میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو دیکھا ہے جو موقع پا کر بھارت سے پاکستان آئے۔ پاسپورٹ پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکے۔ گلیوں اور محلوںمیں گھل مل گئے اور ایک دن ان کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہم نے انہیں گلے سے لگایا: سارا خاندان تو پہلے ہی ادھر تھا۔ چلو یہ بھی آ گیا۔ بچھڑے ہوئے خاندان اکٹھے ہو گئے ایسے بہت سے لوگ ہماری سرکاری سروس میں ہیں جن کی ڈگری انڈیا کی ہے۔ میں نے معلوم تو نہیں کیا کہ وہ کس پراسیس سے پاکستانی بنے۔ مگر یہ جانتا ہوں کہ جو آ جاتا وہ پاکستانی ہوجاتا۔ شروع شروع میں تو خیر کوئی قید نہ تھی۔ پھر ہم نے قانون بنا ڈالا کہ جو 51ء تک پاکستان آ جائے وہ پاکستانی ‘اس کے بعد ہم نے کیسے پاکستانی بنائے۔ کوئی جائزہ لے کر بتائے تو سہی۔ بنگالیوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان میں رہ گئی۔ یہ ان کا قانونی حق تھا پھر بنگلہ دیش سے اجڑ اجڑ کر لوگ پاکستان آنے لگے۔ میں نے دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی یعنی اورنگی کو اسی طرح بنتے دیکھا ہے۔ ایک زمانے میں تو مشرقی پاکستان کے ان بہاری مہاجرین کے ریلے کے ریلے چلے آتے تھے۔ یہ لوگ بھاگ کر ایران سے آئے تھے۔ بہائی تھے۔ انہیں نہ کسی نے غیر مسلم سمجھ کر تنگ کیا نہ ان سے پاکستان کی شہریت چھینی گئی۔ دنیا بھر سے آنے والے یہاں کے شہری بنتے گئے۔بنی صدر کے حامی بھی بھاگ بھاگ کر اس سرزمین پر آئے۔ اب ہم نے شناختی کارڈ کا ذرا ٹائٹ نظام رائج کیاہے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ‘ میں پاکستانی کیسے بنا۔ امرتسر میں پیدا ہوا کہ والدین ہجرت کر کے یہاں آ گئے۔ اب مجھے جب اپنے کاغذات میں بتانا پڑتا ہے کہ میں پیدائشی پاکستانی ہوں یا ہجرت کر کے بنا ہوں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے کہ ٹیکنیکل پیدائشی نہیں ہوں۔ پھر مرے آبائو اجداد تو کشمیر کے اس حصے سے برصغیر میں آئے تھے جو اب بھارت کا مقبوضہ ہے۔ افغانستان کے حوالے سے لوگ اس لئے بھی چڑتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار اب بھی ادھر دوسری طرف ہیں۔ پھر یہ حمداللہ تو پیدا ہی پاکستان کے علاقے چمن میں ہوا تھا۔ ہر ملک کا قانون ہوتا۔کہیں شادی کے ذریعے شہریت مل جاتی ہے کہیں پیدائش آپ کو یہ استحقاق دیتی ہے اور بھی قوانین ہوں گے بے شمار شادیاں افغانستان کی حالیہ صورت حال کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ کسی افغان مرد نے پاکستانی لڑکی سے شادی کر لی یا افغان لڑکی کی شادی کسی پاکستانی مرد سے ہو گئی۔ ہم نے کہاں قانون بنا رکھا ہے کہ ہم کیسے شہریت دیں گے۔ ضرور ہو گا۔ مگر مجھے اس کا علم نہیں۔ ہم نے کیسے پاکستان کے ایوان بالا کے ایک رکن کو غیر ملکی قرار دے دیا ہے۔ پھر یہ حکم ہم نے کس تناظر میں جاری کیا ہے کہ اسے میڈیا اپنے ہاں کوریج نہ دے۔ کیا کسی غیر ملکی کے میڈیا پر آنے پر پابندی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم نے اسے ممکنہ حد تک سب سے بڑی گالی دی ہے۔ اب اس گالی کا احترام کیا جائے۔ اسے غدار نہیںکہا‘ اس سے آگے کی گالی دی ہے۔ اسے غیر ملکی کہا ہے جو پاکستان کا بھیس بدل کر ہم میں شامل ہو گیا ہے۔ خدا کے لئے اس سیاسی لڑائی میں اپنا سب کچھ تباہ نہ کر دیجیے گا۔ ذرا اس کا پس منظر میں دیکھ لیجیے۔ پاکستانی سینٹ کا ممبر ‘صوبائی اسمبلی رکن ہی نہیں سرکاری ملازم بھی رہا اور بیٹا اس وقت شاید پاک فوج میں افسر ہے۔ وہ جو عدیم ہاشمی نے کہا تھا: ان موذیوں پر قہر الٰہی کی شکل میں نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم پاکستان کا کوئی علاقہ ہے جہاں ہم انتشار کے بیج نہیں بو رہے۔ بلوچستان مدت سے جلتا آ رہا ہے۔ بگتی کو قتل کر کے ہم نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور کس طمطراق سے ہم نے یہ کام کیا اور ہمیں اندازہ بھی نہ ہوا کہ ہم نے کیا گناہ کیا ہے۔ سنا ہے جنرل یحییٰ پوچھتا تھا کوئی بتائے مرا جرم کیا ہے۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔ کراچی بڑی مشکل سے قابو میں آ رہا ہے۔ ابھی تو پوری طرح کنٹرول میں نہیںہے۔ خیبر پختونخواہ میں ہم نے اتنے نازک مسائل پیدا کر دیے ہیں کہ ہو سکتا ہے ہم امریکہ سے مل کر افغانستان کا حل ڈھونڈ لیں مگر پاکستان کو ہم نے آگ میں جھونک رکھا ہے۔ اسے قابو کرنا آسان نہیں ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس وقت ہم نے پنجاب میں بھی روحوں کے اندر ایک خلفشار پیدا کر دیا ہے۔ خاص کر وسطی پنجاب جو پنجاب کا دل ہے۔ بری طرح دھڑک رہا ہے۔ خدا مرے پاکستان کو سلامت رکھے‘ ہم نے یہ کیا شروع کر رکھا ہے۔ ہم کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں۔ تم تو اپنا کھیل کھیل کر چل دو گے‘ ہم کس سے فریاد کریں گے۔ کسی آدمی پر اس مارچ یا دھرنے کے لئے پابندی لگانے کے لئے یہ طریقہ تو انتہائی بودا اور گھٹیا ہے جس سے ڈر لگتا ہے‘ اس کے خلاف مقدمہ بن جاتا ہے۔ مریم نواز اس بار تو اس خوف سے پکڑی گئی کہ وہ بڑے بڑے مجمعے کھینچ رہی تھی اور کشمیر کا رخ کرنے کو تھی۔ مسلم لیگ والوں کو تو ہر کسی میں ہر کیس میں اندرکر دیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی کا تو ایک مذاق ہے۔ رانا ثناء اللہ کو کس نالائقی سے جکڑا گیا۔ آخر میں کیپٹن صفدر کو تو تقریر کرنے پر پکڑا گیا۔ پبلک مینٹیننس آرڈیننس کا یہ استعمال ایک عرصے سے نہیں ہوا تھا۔ لگتا ہے‘ انتظامیہ کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔مشکل یہ ہے کہ حکومت میں سیاسی لوگوں کی کمی ہے۔ وہ سیاسی لوگ جو حکومت کے قریب ہوں۔ ہر کسی سیاسی گروہ کی بہت بڑی کمزوری ہوا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اصغر خاں کی بھی تھی۔ اگر نواب زادہ نصراللہ جیسے سیاستدان ایئر مارشل کو تنہا کرنے کی جدوجہد کرنے کے بجائے ان کے گرد اچھے سیاستدانوں کا ایک حلقہ اکٹھا کر دیتے تو آج اصغر خاں کی اور پاکستان کی بھی تاریخ مختلف ہوتی۔ اس مذاق کو بند کیجیے۔ مفتی کفایت اللہ کو بھی اب پبلک مینٹیننس آرڈیننس کے تحت جکڑ لیا گیا ہے۔ آج آپ میں کچھ جان ہے تو سیاسی انداز اختیار کیجیے۔ ہتھکنڈے آپ کے لئے نقصان دہ ہیںاور ملک کے لئے بھی یہ دھرنا ورنا کچھ نہیں ہوا کرتا‘ اسے ہم اہم بنا دیتے ہیں۔ خدا کے لئے ذرا سوچیے!