خیبر پختونخوا کابینہ کے سینئر وزیر عاطف خان کی فراغت صرف پی ٹی آئی کے وزیروں‘ مشیروں‘ ارکان اسمبلی ہی نہیں اتحادیوں کے لئے بھی عمران خان کا سخت اور دو ٹوک پیغام ہے‘ تحریک انصاف کی صفوں میں سازش قبول ہے نہ بلیک میلنگ ۔عاطف خان تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن ہیں اور 2018ء کے انتخابات کے بعد صوبے کی وزارت اعلیٰ کے سنجیدہ امیدوار تھے‘ پرویز خٹک مگر آڑے آئے اور قرعہ فال محمود خان کے نام نکلا‘ جنہیں لوگ خیبر پختونخوا کا عثمان خان بزدار قرار دیتے ہیں۔ مرنجان مرنج‘ کمزوراور تابع دار‘ عاطف خان روز اول سے رنجیدہ تھے اور چند دنوں سے دیگر شاکی ارکان کو ساتھ ملا کر آمادۂ بغاوت۔ عمران خان نے انہیں سیاحت کا وزیر بنایا جو پاکستان جیسے ملک میں کمتر درجے کی وزارت ہے‘ کہتے ہیں کہ عاطف خان نے محمود خان کی نامزدگی سے پہلے خان کے سامنے وزارت سیاحت کے وسیع دائرہ کار اور افادیت کی نقشہ کشی موثر انداز میں کی اور بتایا کہ یہ وزارت خیبر پختونخوا کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے مگر کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا‘ عاطف خان دراصل وزارت سیاحت کی افادیت سے زیادہ محمود خان کی نالائقی اجاگر کر رہے تھے جو 2018ء سے پہلے سیاحت کے وزیر رہے۔ چالاک کپتان نے مگرموقع غنیمت جان کر یہ وزارت عاطف خان کو سونپ دی کہ جو کارنامہ محمود خان انجام نہیں دے سکے ‘آپ انجام دیں تو ہم مانیں۔ وزارت سیاحت کا بجٹ سب سے کم ہے اور تحریک طالبان پاکستان کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ نے منفی سرگرمیوں اور مخالفانہ پروپیگنڈے سے غیر ملکی سیاحوں کے لئے صوبہ خیبر پختونخوا کوتاحال ڈرائونا خواب بنا رکھا ہے۔ منظور پشتین ‘ علی وزیر اور محسن داوڑ کو کس بیرونی قوت کی پشت پناہی حاصل ہے‘ قومی ادارے ہی جانتے ہوں گے ‘مگر اندرون ملک بلاول بھٹو‘ فرحت اللہ بابر کے علاوہ فارن فنڈڈ این جی اوز دانشور اور تجزیہ کار انہیں پشتونوں کے حقوق کا محافظ قرار دیتے نہیں تھکتے‘ خون ریز واقعہ کے بعد علی وزیر اور محسن داوڑ گرفتار ہوئے تو بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ کو سر پر اٹھا لیا۔ منظور پشتین گرفتار ہوئے ہیں تو سوشل میڈیا پر کہرام برپا ہے کہ جمہوری آزادیوں اور بنیادی حقوق کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ پی ٹی ایم کی سرگرمیوں سے صوبے بالخصوص سابقہ فاٹا میں امن و امان کے سنجیدہ مسائل جنم لے رہے ہیں۔ لوگ اسے تحریک طالبان کا نیا جنم قرار دیتے ہیں اور سیاحت کا شعبہ خوف کی اس فضا میں پنپنے سے قاصر۔ عاطف خان کو تو خیر دلچسپی ہی نہ تھی‘ کوشش کرتے بھی تو کیا کر لیتے۔ معقول وسائل نہ سازگار ماحول ۔ شہرام ترکئی سے مل کر معلوم نہیں کیوں خان کے انتخاب کو غلط ثابت کرنے پر تل گئے انجام معلوم! پنجاب میں صورت حال مختلف ہے‘ یہاں پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا کی طرح دو تہائی اکثریت حاصل ہے نہ بلوچستان جیسی کمزور اپوزیشن کا سامنا‘ مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب کی مقبول جماعت ہے‘ شریف خاندان جوڑ توڑ اور درون پردہ ریشہ دوانیوں میں طاق ہے اور اتحادی چودھری برادران‘ سیاست کے مشاق کھلاڑی ‘ سیاسی خاندانوں سے وسیع تعلقات اور ارکان اسمبلی کی دلجوئی کے خوگر۔ عمران خان اگر کسی دبائو میں آ کر یا ازخود‘ بزدار صاحب کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کا فیصلہ کر لیں تو ضروری نہیں کہ ان کا نامزد وزیر اعلیٰ بھی اتنی آسانی سے ایوان کا اعتماد حاصل کر لے‘ جتنی آسانی سے وزیر اعلیٰ بزدار کو ملا۔ کسی اتحادی کے دل میں بھی وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کی دیرینہ حسرت کروٹ لے سکتی ہے اور مسلم لیگ ن کی شاطرانہ چال سے بھی بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے‘ میاں منظور وٹو کو ہٹا کر مخدوم الطاف حسین کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا‘ مقصد اتحادی کی بلیک میلنگ سے نجات پا کر خالصتاً پارٹی کا وفادار وزیر اعلیٰ لانا تھا مگر جونہی میاں منظور وٹو بے نظیر بھٹو اور حامد ناصر چٹھہ کا اعتماد کھو کر وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹے کئی کھلاڑی میدان میں اُترے اور وزارت اعلیٰ کا تاج عارف نکئی کے سر پر رکھ دیا گیا۔مخدوم الطاف بیچارے منہ دیکھتے رہ گئے‘ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر پنجاب میں پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ لانے میں ناکام ہوئیں۔ عمران خان شائد یہ رسک نہیں لینا چاہتے مگر تاثر یہی دے رہے ہیں کہ وہ کسی روحانی اشارے پر اور پنجاب کو وفاق سے کنٹرول کرنے کی پالیسی کے تحت بزدار کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پیالی میں برپا طوفان تھم چکا ہے اور ناراض عناصر کو دو ٹوک پیغام مل گیا ہے کہ موجودہ تنخواہ پر گزارا کرنے میں عافیت ہے‘ تاہم عمران خان کے لئے یہ صورتحال تسلی بخش نہیں‘ انہیں اب پوری توجہ اپنی اور ٹیم کی کارگزاری پر مرکوز کرنا پڑے گی‘ سولہ ماہ انہوں نے گزار لئے ‘ سخت فیصلوں سے قوم کو جتنی اذیت برداشت کرنی تھی کر لی‘ اپوزیشن کے دانتوں کی کاٹ کمزور پڑ چکی اور اسٹیبلشمنٹ و حکومت میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش ناکامی کا منہ دیکھ چکی‘ اب عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور مصائب سے نجات۔ عوام کو اب سابقہ حکومتوں کی غلط ترجیحات اور حکمرانوں کی لوٹ مار کی داستانیں سنا کر مطمئن کیا جا سکتا ہے نہ اچھے دنوں کی لوریاں سنا کر خورسند۔ بحرانوں کی ذمہ داری میڈیا اور مافیا پر ڈال کر بھی گلو خلاصی مشکل ہے کہ مافیاز ہر دور میں موجود رہے‘ انہیں کنٹرول کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے وہ وعظ و نصیحت سے رام ہو سکتے ہیں نہ محض دھمکیوں سے‘ رہا میڈیا تو ایک حصہ بلا شبہ تحریک انصاف اور عمران خان سے الرجک ہے اور دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا عادی‘ لیکن آٹے کا بحران بحیثیت مجموعی میڈیا کا پیدا کردہ ہے نہ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ناراض عناصر کو میڈیا سے شہ ملی‘ اندرونی کشمکش کے اسباب واضح ہیں اور ان کا ازالہ عمران خان اور اس کے صوبائی کپتانوں کی بنیادی ذمہ داری۔ عمران خان نے ڈیووس میں یہ بیان دے کر اپنی کمزوری ظاہر کی کہ ان کے وزراء اور پارٹی کے ارکان ٹی وی دیکھیں نہ اخبارات پڑھیں‘ یہ شتر مرغ کا رویہ ہے جس کا فائدہ صفر اور نقصان بے تحاشہ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے نورتن انہیں صبح صبح چائے کی میز پرایک مخالف اخبار کا خود ساختہ ایڈیشن چھاپ کر پیش کرتے‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق نے آزاد اخبارات و جرائد کا گلا گھونٹا اور میاں نواز شریف نے پسندیدہ صحافیوں کا مُنہ اشرفیوں سے بھرکرپسند کی آوازیں سننے کا جتن کیا مگر ہونی ہو کر رہی اور کسی حکمران کے زوال کو من پسند میڈیا روک سکا نہ چاپلوسی کے فن میں طاق وزیر‘ مشیر اور داستان گو کام آئے۔ عوام دوست پالیسیاں ‘ درست ترجیحات اور نظر آنے والی متاثر کن پرفارمنس‘ یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے۔