ماہ رمضان۔۔۔ نیکیوں کا موسم بہار ہے،اس کا نقطہ کمال اور کلائمیکس یقینا ستائیسویں شب ہوتی ہے، جس کیساتھ دینی کے علاوہ، ہماری بہت سی سماجی اور خاندانی روایات بھی وابستہ ہیں، اس خاص موقع پر مساجد میں ذوق و شوق اور دینی جوش و ولولہ عروج پہ ہوتا ہے، تراویح کے موقع پر مساجد اپنے نمازیوں سے کھچا کھچ بھرجاتی ہیں، وہ نمازی جو ابتدائی چند روز ہ تراویح کے بعد مسجد سے غائب ہوئے تھے، بڑے اہتمام کیساتھ اس شب میں دوبارہ جلوہ گر ہوجاتے ہیں، بالعموم اس خطے میں ، تراویح میں’’ختم قرآن‘‘ا سی ستائیسویں شب میں ہوتا ہے ، جسکا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عام طور پر تراویح میں روزانہ سواپارہ پڑھا جاتا ہے ، جبکہ اس شب کیلئے تیسویں پارے کی آخری پچیس، تیس سورتیں بچتی ہیں، جنکے ساتھ بیس تراویح کی بسہولت ادائیگی قدرے خوشگوار رہتی ہے۔ ہمارے اس خطے میں ستائیسویں کے بعد، رمضان المبارک کی رونقیں قدرے کم ہوجاتی اور لوگ عید کی تیاری میں مشغول ہوجاتے ہیں، ایک شب پہلے جس مسجد میں نمازیوں کا ہجوم تھا، وہاں پھر اگلے ہی روز، اقبال کے الفاظ میں: مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے لاہور میں ختم قرآن کے بڑے اجتماعات تاریخی بادشاہی مسجد اور داتادربار میں ہوتے ہیں، جہاں راقم کو اپنی منصبی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ، حاضری کی سعادت میسر ہوتی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ ’’سماجی فاصلے ‘‘کا اصل اطلاق ہوا ہی ان مساجد میں ہے ، ہمارے اس مذہبی طبقہ نے اچھے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ، بصورت دیگر ان پر تنقید، قدرے آسان بھی ہوتی ہے اور ہمیں اسکاشوق بھی رہتا ہے۔ویسے بادشاہی مسجد کا وسیع وعریض صحن’’سماجی فاصلے‘‘کی شرائط کیساتھ۔۔۔ نمازیوں کے بھرپور پھیلائو سے آراستہ تھا اور لوگوں کی حاضری بھی دینی روایت کے مطابق اچھی تھی، جبکہ داتا دربار کی وسعتیں اپنے عقید تمندوں کیلئے ہمیشہ ہی کم پڑ جاتی ہیں۔ بہرحال اس کے باوجود یہاں بھی اہتمام و انتظام شایانِ شان تھا ۔خطیب محترم از خود صلوۃ التراویح کی امامت فرماتے ہیں ، ان کیساتھ ان کے نائب محمد فیصل جماعتی انکی معاونت کرتے ہیں۔ سورۃ القدر کی روشنی میں اس شب کی ایک خاص نسبت’’ نزول قرآن‘‘ کیساتھ ہے، کہ اس رات قرآن پاک نے لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پہ نزول فرمایا، اس کو ’’یکبارگی نازل‘‘ ہونا بھی کہا جاتا ہے، جیساکہ سورۃ القدر میں ہے کہ:’’ ہم نے اس کو ’’ شبِ قدر‘‘ میں نازل کیا ‘‘، عربی زبان میں ہر لفظ کا ایک وزن اور سکیل ہے ، جس کے مطابق اس کے معنی کا تعین ہوتا ہے ،"اَنْزَلَ"کا معنی ہی یکبارگی نازل ہونے کے ہیں، جبکہ عملی طور پر قرآن پاک23 سال میں، آسمانِ دنیا سے ، قلبِ منیرپر، نجماً نجماً، حسب ضرورت نازل ہوتا رہا، اس کیلئے قرآن میں لفظ" تنزیل"استعمال ہوا ہے ، اس کے معنی ہی تدریج کے ہیں۔ یعنی تھوڑا، تھوڑا کر کے نازل ہونا، اس میں ایک اور پہلو پر بھی مفسرین نے بحث کی ہے کہ " بیت العزۃ" جسے لوح محفوظ بھی کہا جاتا ہے، سے بھی براہ راست جبرئیل امین لیکر نازل ہوسکتے تھے ، اسکو دو مرحلو ں میں تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی، تو اس پر علما تفسیر نے بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شبِ معراج ۔۔۔سدرۃ المنتہیٰ سے آگے ، جبرئیل امین نے مزید پیش قدمی سے معذرت کرتے ہوئے عرض کی تھی کہ میر ی پہنچ یہیں تک تھی ، اس سے آگے آپﷺ خود ہی تشریف لے جایئے، ایک صوفی کے بقول: اگر یک سرِ موئے بر ترپرم فروغِ تجلی بسوزدپر م گویا اُس’’ بیت العزۃ‘‘ تک جبرئیل امین کی رسائی ممکن نہ تھی ، یو ں قرآن پاک کا اولین نزول اس" لیلۃُ القدر"میں ابتدائی اور اجمالی صورت میں ہوا، یوں اس شب کی عبادات میں ، قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت ، اس رات کا ایک فطری تقاضہ ہے اور با لخصوص اس کو سمجھ کر پڑ ھا جاناازحد فضیلت کا باعث ہے ۔ ہمارے ہاں تراویح میں ختم قرآن کیساتھ، ہی ’’محافلِ شبینہ‘‘کا بھی آغاز ہوجاتا ہے، جو کہ تین راتوں تک مسلسل جاری رہتاہے، ماضی قریب میں "قومی محفل شبینہ" کی ایک عظیم روایت، جس میں پاکستان کے صوبائی دارالحکومتوں سے ایک ترتیب کیساتھ ایک ایک پارہ براہ راست نشر ہوتا، جو کہ خیروبرکت کے علاوہ قومی یکجہتی اورملی استحکام کا غماز ہوتا ، اس قومی محفل شبینہ میں نامو ر حفاظ قاری شرکت کرتے ، مساجد کو خوب آراستہ کیا جاتا ، عمدہ پڑھنے والوں کو بالاہتمام مدعو کیا جاتا، شومئی قسمت ، گذشتہ چند سالوں سے یہ روایت دم توڑگئی، "محافل شبینہ"کا اہتمام تواب بھی ہوتا ہے ، مگر انفرادی سطح پر، فیصل مسجد اسلام آباد کا بادشاہی مسجد لاہور یا داتا دربار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسی طرح دیگر صوبے بھی اپنی اپنی سطح پر یہ اہتمام کرتے ہیں۔ پرسوں داتا دربار میں ختم قرآن کی تقریب جاری تھی کہ پنجاب حکومت کیطرف سے مزارات کھولے جانے کے خوشگوار فیصلے کی اطلاح موصول ہوئی ، جسکا سیکرٹری اوقاف نے ، داتا دربار کے زائرین کے سامنے اعلان کردیا ، فضائیں نعرہ ہائے تکبیر و رسالت سے گونج اُٹھیں۔ یہ اعلان داتا دربار سمیت پنجاب میں اوقاف کے زیر تحویل 544 مزارات کیلئے تھا، جن کو کھولنے کیلئے محکمہ ہذا نے مورخہ 14 مئی 2020 کو ایک باقاعدہ نوٹ ارسال کیا تھا، جس میں یہ بھی تحریر کیا کہ محکمہ ہذا نے حکومت پنجاب کے فیصلے بمطابق 14 مارچ 2020 کی تعمیل میں ، کورونا کے تدارک کے سلسلے میں پنجاب کے تمام مزارات کو بند کردیا تھا۔ پنجاب اوقاف ، ایک خود مختار ادارہ ہے ، جس کی آمدن کا زیادہ تر انحصار مزارات کے کیش بکسز کے نذرانہ جات پر ہوتا ہے، جو زائرین کیطرف سے پیش ہوتے ہیں، مزارات کو بند ہوئے دوماہ کا عرصہ ہونے کو ہے ، جس کے سبب محکمہ شدید مالی مشکلات سے بھی دوچار ہے ، جس کے ازالے کیلئے حکومت سے تین سو ملین کی گرانٹ کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ اہلیانِ لاہور۔۔۔ داتادربار سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ ہمارے ایک صوفی مفکر کہا کرتے تھے کہ لاہور والے داتا صاحب ؒ سے اور داتا صاحبؒ لاہور والوں سے محبت کرتے ہیں، داتا صاحب لاہور والوں کی خوشی پہ خوش اور انکی تکلیف پہ آزر دہ ہوجاتے ہیں۔ موجودہ بحران کے سبب داتا دربار کو بند رکھنے کی ایسی مثال شاید، اسکی پوری تاریخ میں نہ ملتی ہو ، بہر حال مزارات کو کھولنے کے سلسلے میںمورخہ20 مئی(بدھ)2020 کو کیبنٹ سب کمیٹی لا اینڈ آرڈر کا اجلاس وزیر قانون پنجاب کی زیر صدارت ، دربار ہال سول سیکرٹریٹ میں منعقدہوا، جس میں پنجاب کے تمام کمشنرز اور آرپی اوز نے بھی وڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شرکت کی ۔ زیر نظر معاملہ پر انفرادی سطح پر ، ہر ایک سے رائے طلب کرنے کے بعد ، بالا تفاق ایس او پیز کی پابند ی کیساتھ ، مزارات کو کھولنے پہ اتفاق ہوا، یہ فیصلہ یقینا مذہبی طبقات بالخصوص مزارات سے متعلق اس غالب اکثریت کیلئے آسودگی کا باعث ہے، جو بنیادی طور پر ، پرُ امن اور صلح جو ُ لوگ ہیں۔ اور ان مقامات کو ہدایت ، راہنمائی اور روحانی سیرابی کا مرکز سمجھتے ہیں۔